حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت صفوان ؓ فرماتے ہیں: جو اپنے گھر سے علم حاصل کرنے نکلتا ہے تو فرشتے اس علم سیکھنے والے اور اس کے علم سکھانے والے کے لیے اپنے پَر بچھاتے ہیں۔ 2نبی کریم ﷺ کے صحابۂ کرام ؓکا علمی ولولہ اور شوق جب حضرت معاذبن جبلؓکی وفات کا وقت قریب آیا تو فرمایا: دیکھو کیا صبحِ صادق ہوگئی ہے؟ ایک آدمی نے آکر بتایا کہ ابھی نہیں ہوئی۔ پھر فرمایا: دیکھو کیا صبحِ صادق ہوگئی ہے؟ پھر کسی نے آکر بتایا کہ ابھی نہیں ہوئی۔ بالآخر ایک آدمی نے آکر بتایا کہ صبحِ صادق ہوگئی ہے، تو فرمایا: میں اس رات سے اﷲ کی پناہ مانگتا ہوں جس کی صبح دوزخ کی آگ کی طرف لے جائے۔ خوش آمدید ہو موت کو! خوش آمدید ہو اس مہمان کو جو بہت لمبے عرصے کے بعد ملنے آیا ہے، جس سے مجھے بہت محبت ہے! لیکن وہ ایسے وقت آیا ہے جب کہ میرے ہاں فاقہ ہے۔ اے اﷲ! میں زندگی بھر تجھ سے ڈرتا رہا، لیکن آج تیری رحمت کا امیدوار ہوں۔ اے اﷲ! تجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ مجھے دنیا سے اور اس میں زیادہ عرصہ تک رہنے سے اس وجہ سے محبت نہیں ہے تاکہ میں نہریں کھودوں اور درخت لگاؤں، بلکہ اس وجہ سے ہے تاکہ میں سخت گرمی کی دوپہر میں پیاس برداشت کروں یعنی گرمیوں میں روزے رکھوں اور مشقت کے مواقع پر مشقت اٹھاؤں اور علم کے حلقوں میں عُلما کی خدمت میں دوزانو بیٹھوں۔ 3 حضرت ابو الدرداء ؓ نے فرمایا: اگر تین کام نہ ہوتے تو میں اسے پسند کرتا کہ دنیا میں اور نہ رہوں۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ وہ تین کام کون سے ہیں؟انھوں نے فرمایا: ایک تو دن اور رات میں اپنے خالق کے سامنے سرزمین پر رکھنا جو میری آخرت کی زندگی میں آگے جمع ہورہا ہے، دوسرے سخت گرمیوں کی دوپہر میں (روزہ رکھ کر) پیاسا رہنا، تیسرے ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھنا جو عمدہ کلام کو ایسے چنتے ہیں جیسے کہ پھل چنا جاتا ہے۔ آگے اور بھی حدیث ہے۔1 حضرت ابنِ عباس ؓ فرماتے ہیں: جب حضورﷺ کا انتقال ہوا تو میں نے ایک انصاری آدمی سے کہا: آج صحابہ بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں، آؤ اِن سے پوچھ پوچھ کر قرآن و حدیث جمع کرلیں۔ انھوں نے کہا: اے ابنِ عباس!آپ پر بڑا تعجب ہے! کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ حضورﷺ کے اتنے بڑے بڑے صحابہ ؓ کے ہوتے ہوئے بھی لوگوں کو آپ کی ضرورت پڑے گی؟ (انھوں نے میری بات نہ مانی اور اس کے لیے تیار نہ ہوئے تو) میں نے انھیں چھوڑ دیا اور حضورﷺ کے صحابہ سے پوچھنے لگا۔ اور مجھے پتا چلتا کہ فلاں صحابی فلاں حدیث بیان کرتے ہیں تو میں ان کے دروازے پر جاتا۔ وہ دوپہر کو آرام کررہے ہوتے میں ان کے دروازے پر چادر پر ٹیک لگا کر بیٹھ جاتا اور ہوا کی وجہ سے مٹی مجھ پر پڑتی رہتی۔ وہ صحابی (آرام سے فارغ ہوکر) باہر آتے تو مجھے دیکھتے اور کہتے: اے حضورﷺ کے چچا زاد بھائی! آپ کا کیسے آنا ہوا؟ آپ خود کیوں آئے؟ آپ کسی کو میرے پاس بھیج دیتے، میں آپ کے پاس آجاتا۔ میں کہتا: نہیں، (مجھے آپ سے علم حاصل کرنا ہے اس لیے) میرا حق بنتا ہے کہ میں آپ کی خدمت میںآؤں۔ پھر میں ان