حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کا معاملہ برابر سرابر ہوگیا، اس میں ایک صفت اچھی ہے اور ایک بری۔ غور سے سنو! ہر بد عہد کو اس کی بد عہدی کے مطابق قیامت کے دن جھنڈا ملے گا (جس سے اس کے اس برے کام کے لوگوں میں شہرت ہوگی)۔غور سے سنو! سب سے بڑی بد عہدی عام مسلمانوں کے امیر کی بد عہدی ہے۔ غور سے سنو! جسے حق بات معلوم ہے اسے لوگوں کی ہیبت اس حق بات کے کہنے سے ہر گز نہ روکے۔ غور سے سنو! سب سے اَفضل جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا ہے۔ غور سے سنو! دنیا کی اتنی عمر گزر گئی ہے جتنا آج کا دن گزر گیا ہے اور اتنی باقی ہے جتنا آج کا دن باقی ہے۔1 حضرت سائب بن مِہجان اہلِ شام میں سے ہیں اور انھوں نے صحابۂ کرامؓکا زمانہ بھی پایا ہے۔ وہ کہتے ہیں: جب حضرت عمر ؓ ملکِ شام تشریف لائے تو انھوں نے (کھڑے ہو کر بیان فرمایا اور پہلے) اﷲ کی حمد و ثنا بیان کی اور خوب وعظ ونصیحت فرمائی اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر فرمایا۔ پھر فرمایا: حضور ﷺ نے ہم لوگوں میں کھڑے ہو کر بیان فرمایا جیسے میں آپ لوگو ںمیں کھڑے ہو کر بیان کر رہا ہوں۔ آپ نے ہمیں اس بیان میں اﷲ سے ڈر نے کا، صلہ رحمی کرنے کا اور آپس میں صلح صفائی سے رہنے کا حکم دیا۔ اور فرمایا: تم لوگ جماعت سے چمٹے رہو، اور امیر کی سننے اور ماننے کو لازم پکڑے رکھو،کیوںکہ اﷲ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے۔ اکیلے آدمی کے ساتھ شیطان ہوتا ہے اور دو آدمیوں سے شیطان بہت دور ہوتا ہے۔ کسی مرد کو کسی اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی میں ہرگز نہیں ہونا چاہیے ورنہ ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوگا۔ جسے اپنی برائی سے رنج ہو اور اپنی نیکی سے خوشی ہو یہ اس کے مسلمان اور مؤمن ہونے کی نشانی ہے۔ اور منافق کی نشانی یہ ہے کہ اسے اپنی برائی سے کوئی رنج نہیں ہوتا اور نیکی سے کوئی خوشی نہیں ہوتی۔ اگر وہ کوئی خیر کا عمل کرلے تو اسے اس عمل پر اﷲ سے کسی ثواب کی اُمید نہیں ہوتی، اور اگر کوئی برا کام کرلے تو اسے اس عمل پر اﷲ کی طرف سے کسی سزا کا ڈر نہیں ہوتا۔ لہٰذا دنیا کی تلاش میں میانہ روی اختیار کرو، کیوںکہ اﷲ نے تم سب کی روزی کا ذمہ لے رکھا ہے۔اور ہر انسان نے جو عمل کرنا ہے اس کا و ہ عمل ضرور پورا ہو کر رہے گا۔ اپنے نیک اعمال کے لیے اﷲ سے مدد مانگا کرو، کیوںکہ اﷲ تعالیٰ جس عمل کو چاہیں مٹادیں اور جس عمل کو چاہیں باقی رکھیں اور اسی کے پاس لوحِ محفوظ ہے۔ (حضورﷺ کا بیان ختم ہوگیا اور پھر حضرت عمرؓنے بھی بیان ختم کر دیا اور ختم کرنے کے لیے فرمایا:) وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِہٖ وَعَلَیْہِ السَّلاَمُ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ۔ اور اﷲ تعالیٰ ہمارے نبی حضرت محمد (ﷺ) اور ان کی آل پر درود بھیجے، اور ان پر سلام ہو اور اﷲ کی رحمت۔ السلام علیکم۔ 1حضورﷺ کا آخری بیان حضرت معاویہ بن ابی سفیان ؓ فرماتے ہیں: حضورﷺ نے ایک مرتبہ (مرض الوفات میں) فرمایا: مختلف کنوؤں سے سات مشکوں میں (پانی بھر کر) میرے اوپر ڈالو تاکہ (مجھے کچھ اِفاقہ ہو جائے اور) میں لوگوں کے پاس باہر جا کر انھیں وصیت کروں۔ چناںچہ (پانی ڈالنے سے حضورﷺ کو کچھ اِفاقہ ہوا تو) حضورﷺ سر پر پٹی باندھے ہوئے باہر آئے اور منبر پر تشریف فرما ہوئے۔ پھر اﷲ کی حمد وثنا بیان کی، پھر فرمایا: