حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لیکن جب ہم نے ان کی قبر کھودی تو ہمیں ان کی نعش قبر میں نظر نہ آئی۔ 1 ابو نُعَیم کی روایت میں یہ بھی ہے کہ جب (ہم سمندر پارکرکے جزیرہ میں پہنچ گئے اور) ہمیں کسریٰ کی طرف سے مقرر کردہ گورنر ابنِ مکعبر نے یوں جانوروں پر آتے دیکھا تو اس نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! نہیں، ہم ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ پھر کشتی میں بیٹھ کر ایران چلاگیا۔ 2 حضرت انسؓفرماتے ہیں: میں نے اس اُمّت میں تین باتیں پائی ہیں۔ پھر اس کے بعد لمبی حدیث ذکرکی ہے، اس میں یہ مضمون بھی ہے کہ پھر حضرت عمر بن خطاب ؓ نے ایک لشکر تیار کیا اور حضرت علاء بن حضرمیؓ کو ان کا امیر بنایا۔ میں بھی اس غزوہ میں گیا تھا۔ جب ہم غزوہ کی جگہ پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ دشمن کو ہمارا پتا چل گیا تھا اور وہ پانی کے تمام نشان مٹاکر وہاں سے جاچکاتھا۔ گرمی پڑرہی تھی اور پیاس کے مارے ہمارا اور ہمارے جانوروں کا براحال ہوگیاتھا، اور جمعہ کا دن تھا۔ جب سورج غروب ہونے لگا تو حضرت علاء نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی، پھر انھوں نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اور ہمیں آسمان میں بادل کا کہیں نام ونشان نظر نہیں آرہاتھا۔ اللہ کی قسم! حضرت علاء نے ابھی ہاتھ نیچے نہیں کیے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہوا بھیج دی اور ایک بادل ظاہر کردیا، اور وہ بادل اتنے زور سے برسا کہ سارے نالے، تالاب اور وادیاں پانی سے بھر گئیں، اور ہم نے خود پانی پیا اور اپنے جانوروں کو بھی پلایا اور اپنے مشکیزوں اور برتنوںکو بھر لیا۔ پھر ہم اپنے دشمن کے پاس پہنچے، وہ لوگ اپنی جگہ چھوڑ کر خلیج پار کرکے سمندر میں ایک جزیرے میں جاچکے تھے۔ اس خلیج کے کنارے کھڑے ہو کر حضرت علاء ؓ نے ان الفاظ سے اللہ کو پکارا: یَا عَلِيُّ! یَا عَظِیْمُ! یَا حَلِیْمُ! یَا کَرِیْمُ! پھر ہم سے کہا: اللہ کا نام لے کر اس سمندر کو پار کرو۔ چناںچہ ہم وہ سمندر پار کرنے لگے، ہمارے جانوروں کے کھر بھی گیلے نہیں ہورہے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم نے دشمن کو جالیا۔ ہم نے انھیں قتل بھی کیا اور گرفتار بھی کیا اور انھیں غلام بھی بنایا۔ اس کے بعد ہم پھر اسی خلیج کے کنارے پر آئے اور حضرت علاء نے اللہ کو پھر ان ہی ناموں سے پکارا اور ہم پھر اس خلیج کو اس طرح پار کرنے لگے کہ ہمارے جانوروں کے کھر گیلے نہیں ہورہے تھے۔ آگے اور حدیث بھی ذکر کی۔ 1 حضرت سہم بن مِنجاب کہتے ہیں: ہم حضرت علاء بن حضرمیؓکے ساتھ غزوہ میں گئے۔ پھر سارا واقعہ ذکرکیا اور دعا میں یہ الفاظ ذکرکیے: یَا عَلِیْمُ! یَا حَلِیْمُ! یَا عَلِيُّ! یَا عَظِیْمُ! ہم تیرے بندے ہیں ،اور تیرے راستہ میں اور تیرے دشمن سے لڑنے کے ارادے سے نکلے ہیں۔ ہمیں ایسی بارش عطاکر جس سے ہمارے پینے اور وضو کے پانی کا انتظام ہوجائے، اور جب ہم اسے چھوڑ کر جائیں تو ہمارے علاوہ اور کسی کا اس میں حصہ نہ ہو۔ اور سمندر کی دعا میں یہ الفاظ ہیں: اور ہمارے لیے اپنے دشمن تک پہنچنے کا راستہ بنادے۔2 ابونُعَیم کی روایت میں ہے کہ حضرت علاءؓہمیں لے کر سمندر میں گھس گئے۔ جب ہم اندر گئے تو پانی ہماری سواریوں کے نمدوں تک بھی نہیں پہنچا اور ہم دشمن تک پہنچ گئے۔ اور ابنِ جریر نے اپنی تاریخ میں اور ابنِ کثیر نے ’’البدایۃ‘‘ میں یہ قصہ یوں بیان کیا ہے کہ