حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کپڑے اور زیور پہنا کر اس دریائے نیل میں ڈال دیتے ہیں۔ حضرت عمروؓ نے کہا: یہ کام اسلام میں تو ہو نہیں سکتا، کیوںکہ اسلام اپنے سے پہلے کے تمام (غلط) طریقے ختم کردیتا ہے۔ چناںچہ مصروالے بُونہ، اَبیب اور مِسری تین مہینے ٹھہرے رہے، اور آہستہ آہستہ دریائے نیل کا پانی بالکل ختم ہوگیا۔ یہ دیکھ کر مصروالوں نے مصر چھوڑ کر کہیں اور چلے جانے کا ارادہ کرلیا۔ جب حضرت عمروؓنے دیکھا تو انھوں نے اس بارے میں حضرت عمر بن خطّابؓکو خط لکھا۔ حضرت عمرؓنے جواب میں لکھا: آپ نے بالکل ٹھیک کیا، بے شک اسلام اپنے سے پہلے کے تمام غلط طریقے ختم کردیتا ہے۔ میں آپ کو ایک پر چہ بھیج رہا ہوں، جب آپ کو میرا خط ملے تو آپ میرا وہ پرچہ دریائے نیل میں ڈال دیں۔ جب خط حضرت عمروؓکے پاس پہنچا تو انھوں نے وہ پرچہ کھولا، اس میں یہ لکھاہواتھا: اللہ کے بندے امیرالمؤمنین عمر کی طرف سے مصر کے دریائے نیل کے نام۔ امابعد! اگر تم اپنے پاس سے چلتے ہو تو مت چلو، اور اگر تمھیں اللہ واحد قہار چلاتے ہیں تو ہم اللہ واحد قہار سے سوال کرتے ہیں کہ وہ تجھے چلادے۔ چناںچہ حضرت عمروؓنے صلیب کے دن سے ایک دن پہلے یہ پرچہ دریائے نیل میں ڈالا۔ ادھر مصروالے مصر سے جانے کی تیاری کرچکے تھے، کیوںکہ ان کی ساری معیشت اور زراعت کا اِنحصار دریائے نیل کے پانی پر تھا۔ صلیب کے دن صبح لوگوں نے دیکھا کہ دریائے نیل میں سولہ ہاتھ پانی چل رہاہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے مصروالوں کی اس بری رسم کو ختم کردیا (اس دن سے لے کر آج تک دریائے نیل مسلسل چل رہاہے)۔ 1 قبیلۂ بنو سعد کے غلام حضرت عروہ اَعمیٰ کہتے ہیں: حضرت ابو ریحانہؓایک مرتبہ سمندر کا سفر کررہے تھے۔ وہ اپنی کچھ کاپیاں سی رہے تھے اچانک ان کی سوئی سمندر میں گرگئی۔ انھوں نے اسی وقت یوں دعامانگی: اے میرے ربّ! میں تجھے قسم دیتاہوں کہ تو میری سوئی ضرور واپس کردے۔ چناںچہ اسی وقت وہ سوئی (سطح سمندر) پر ظاہر ہوئی اور حضرت ابو ریحانہ نے وہ سوئی پکڑلی۔ 2 حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں: جب نبی کریمﷺ نے حضرت علاء بن الحضرمیؓ کو بحرین کی طرف بھیجاتو میں بھی ان کے پیچھے ہولیا۔ میں نے ان کی تین باتیں دیکھیں، مجھے یہ پتا نہیں کہ ان میں سے سب سے زیادہ عجیب بات کون سی ہے۔ ایک بات تو یہ ہے کہ جب ہم سمندر کے کنارے پر پہنچے تو انھوں نے کہا:بسم اللہ پڑھ کر سمندر میں گھس جائو۔ چناںچہ ہم بسم اللہ پڑھ کر (بغیر کشتیوں کے) سمندر میں گھس گئے اور ہم نے (اپنے جانوروں پر سوار ہوکر) سمندر پار کرلیا اور ہمارے اونٹوں کے پائوں بھی گیلے نہیں ہوئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہاں سے جب ہم واپس آرہے تھے تو ایک وسیع بیابان میں ہماراگزر ہوا۔ ہمارے پاس پانی بالکل نہیں تھا، ہم نے ان سے شکایت کی۔ انھوں نے دو رکعت نماز پڑھ کر دعامانگی تو ایک دَم آسمان پر ڈھال کی طرح کا بادل آیا اور وہ خوب برسا اور اس نے اپنے سارے دہانے کھول دیے۔ ہم نے خود بھی پانی پیا اور اپنے جانوروں کو بھی پلایا۔ تیسری بات یہ ہے کہ ان کا انتقال ہوگیا، ہم نے ان کو رَیت میں دفن کردیا۔ ابھی ہم وہاں سے تھوڑا سا آگے گئے تھے کہ ہمیں خیال آیا کہ اس علاقہ کی زمین پکی نہیں ہے ریتیلا علاقہ ہے، کوئی درندہ آکر ان کی قبر کھود کر انھیں کھاجائے گا۔ اس خیال سے ہم واپس آئے تو قبر تو ان کی صحیح سالم تھی،