حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
والوں میں سب سے اچھے! آپ ہمیں ان تمام اعمال کا حکم دیں جو آپ کے پاس اللہ کی طرف سے آرہے ہیں، ہم ان اعمال کو ضرور کریں گے چاہے ان اعمال کی محنت میں ہمارے بال سفید ہوجائیں۔ اور آپ میرے اس دن سفارشی بن جائیں جس دن آپ کے علاوہ اور کوئی سفارشی سواد بن قارب کے کسی کام نہیں آسکتا۔ میرے اشعار سن کر حضورﷺ اور تمام صحابہ بہت زیادہ خوش ہوئے، حتیٰ کہ ان سب کے چہروں میں خوشی نمایاں نظر آنے لگی۔ حضرت محمد بن کعب قرظی راوی کہتے ہیں: یہ قصہ سنتے ہی حضرت عمر ؓ اٹھ کر حضرت سواد سے چمٹ گئے اور فرمایا: میری دلی خواہش تھی کہ میں تم سے یہ سارا قصہ سنوں۔ کیا اب بھی وہ جنّ تمہارے پاس آتا ہے؟ حضرت سواد نے کہا: جب سے میں نے قرآن پڑھنا شروع کیا ہے وہ نہیں آیا اور اس جنّ کی جگہ اللہ کی کتاب نعم البدل ہے۔ پھر حضرت عمرنے فرمایا: ہم ایک دن قریش کے ایک قبیلہ میں تھے جن کو آلِ ذَرِیح کہاجاتاہے۔ انھوں نے اپنا ایک بچھڑا ذبح کیا اور قصاب اس کا گوشت بنارہاتھا کہ اتنے میں ہم سب نے بچھڑے کے پیٹ میں سے آواز سنی اور بولنے والی کوئی چیز ہمیں نظر نہیں آرہی تھی۔ وہ یہ کہہ رہاتھا: اے آلِ ذَرِیح! یہ کامیابی والا کام ہے۔ ایک پکارنے والا پکار کر فصیح زبان میں کہہ رہاہے کہ وہ اس بات کی گواہی دیتاہے کہ اللہ کے سواکوئی معبود نہیں۔ 1 حضرت براءؓ کی روایت میں ہے کہ حضرت سواد بن قاربؓ نے فرمایا: میں ہندوستان میں ٹھہراہوا تھا تو ایک رات میرا تابع جنّ میرے پاس آیا۔ پھر ساے قصے کے بعد آخری اشعار سنانے کے بعد یہ ہے کہ اشعار سن کر حضورﷺ اتنے ہنسے کہ آپ کے دندانِ مبارک نظر آنے لگے اور آپ نے فرمایا: اے سواد! تم کامیاب ہوگئے۔ حضرت محمد بن کعب قرظی کی دوسری روایت میں ہے کہ حضرت سواد ؓ فرماتے ہیں کہ جن کی باتوں سے میرے دل میں اسلام کی محبت بیٹھ گئی اور اسلام کا شوق پیداہوگیا۔ صبح کو میں نے اونٹنی پر کجاوہ کسا اور مکہ کی طرف چل پڑا۔ راستہ میں لوگوں نے بتایا کہ نبی کریم ﷺ ہجرت کرکے مدینہ جاچکے ہیں۔ چناںچہ میں مدینہ چلاگیا اور وہاں جاکر حضورﷺ کے بارے میں پوچھا، لوگوں نے بتایا کہ حضورﷺ مسجد میں ہیں۔ میں مسجد گیا اور اونٹنی کے پائوں کو رسی باندھ کر اندر گیا تو حضورﷺ تشریف فرماتھے اور لوگ آپ کے ارد گرد تھے۔ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ! میری درخواست سن لیں۔ حضرت ابو بکرؓ نے کہا: حضورﷺ کے قریب آجائو۔ میں آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ حضورﷺ کے سامنے پہنچ گیا تو حضور ﷺ نے فرمایا: کہو اور تمہارا جنّ جو تمہارے پاس آتارہا اس کے بارے میں بتائو۔ 1 حضرت عباس بن مِرداس سُلَمیؓ فرماتے ہیں: میرے اسلام لانے کی اِبتدا اس طرح ہوئی کہ جب میرے والد مرداس کے مرنے کا وقت قریب آیا تو انھوں نے مجھے ضمار نامی اپنے بت کے خیال رکھنے کی وصیت کی۔ میں نے اس بت کو ایک کمرے میں رکھ لیا اور روزانہ اس کے پاس جانے لگا۔ جب نبی کریم ﷺ کا ظہور ہوا تو ایک دفعہ میں نے آدھی رات کو ایک آواز سنی جس سے میں ڈرگیا