حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
یعنی دنیا میں رہ کر دنیا کے لیے بھی محنت کرتے ہیں اور آخرت کے لیے بھی۔ پھر حضرت ابنِ زبیر ؓ نے اس آیت تک تلاوت فرمائی: {وَاذْکُرُوا اللّٰہَ فِیْ اَیَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ}2 اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو کئی روز تک۔ اور فرمایا: اس سے ایامِ تشریق مراد ہیں اور ان دنوں کے ذکر میں سُبْحَانَ اللّٰہِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہنا، لا إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ کہنا، اَللّٰہُ أَکْبَرُ کہنا اور اللہ کی عظمت والے کلمات کہنا سب شامل ہے۔ پھر حضرت ابنِ زبیرؓ نے مِیقات یعنی لوگوں کے اِحرام باندھنے کی جگہوں کا ذکر کیا۔ چناںچہ فرمایا: مدینہ والوں کے لیے اِحرام باندھنے کی جگہ ذُوالحلیفہ ہے، اور عراق والوں کے لیے عقیق ہے، اور نجد والوں اور طائف والوں کے لیے قَرَن ہے، اور یمن والوں کے لیے یَلَمْلَم ہے۔ اس کے بعد اہلِ کتاب کے کافروں کے لیے یہ بد دعا کی: اے اللہ! اہلِ کتاب کے ان کافروں کو عذاب دے جو تیری آیتوں کا انکار کرتے ہیں اور تیرے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں اور تیرے راستہ سے روکتے ہیں۔اے اللہ! انھیں عذاب بھی دے اور ان کے دل بد کار عورتوں جیسے بنادے۔ اس طرح بہت لمبی دعا کی پھر فرمایا: یہاں کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے ایسے اندھا کردیا جیسے اُن کی آنکھوں کو اندھا کیا۔ وہ حجِ تمتع کا یہ فتویٰ دیتے ہیں کہ ایک آدمی مثلاً خراسان سے حج کا احرام باندھ کر آیا، تو یہ اس سے کہتے ہیں: عمرہ کر کے حج کا احرام کھول دو، پھر یہاں سے حج کا احرام باندھ لینا (حالاںکہ جب وہ حج کا احرام باندھ کر آیا ہے تو وہ حج کر کے ہی احرام کھول سکتا ہے اس سے پہلے نہیں)۔ اللہ کی قسم! حج کا احرام باندھ کر آنے والے کو صرف ایک صورت میں تمتع کی یعنی عمرہ کر کے احرام کھول دینے کی اجازت ہے جب کہ اسے حج سے روک دیا جائے۔ پھر حضرت ابنِ زبیرؓ نے لبیک پڑھا اور تمام لوگوں نے پڑھا۔ راوی کہتے ہیں:میں نے لوگوں کو اس دن سے زیادہ روتے ہوئے کسی دن نہیں دیکھا۔ 1 حضرت ہشام بن عروہ کہتے ہیں: حضرت عبداللہ بن زبیر ؓنے اپنے بیان میں فرمایا: اچھی طرح سمجھ لو کہ بطنِ عُرنہ کے علاوہ سارا عرفات ٹھہرنے کی جگہ ہے۔ اور خوب جان لو کہ بطنِ مُحَسّر کے علاوہ سارا مزدَلفہ ٹھہرنے کی جگہ ہے۔2 حضرت عبّاس بن سَہَل بن سعد ساعدی انصاری کہتے ہیں: میں نے مکہ کے منبر پر حضرت ابنِ زبیر ؓ کو بیان میں یہ فرماتے ہوئے سنا: اے لوگو! حضورﷺ فرمایا کرتے تھے: اگر ابنِ آدم کو سونے کی ایک وادی دے دی جائے تو وہ دوسری وادی کی تمنّا کرنے لگے گا، اور اگر اسے دوسری وادی دے دی جائے تو تیسری کی تمنا کرنے لگے گا، اور ابنِ آدم کے پیٹ کو (قبر کی) مٹی کے سوا اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔ اور جو اللہ کے سامنے توبہ کرتا ہے اللہ اس کی توبہ قبول فرما لیتے ہیں۔ 1