حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
امّا بعد! اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے: {اَلْحَجُّ اَشْھُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ}1 (زمانہ) حج چند مہینے ہیں جو معلوم ہیں۔ فرمایا: وہ تین مہینے ہیں: شوال، ذیقعدہ اور ذی الحجہ کے دس دن۔{ فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ} ’’سو جو شخص ان میں حج مقرر کرے تو پھر (اس کو) نہ کوئی فحش بات (جائز) ہے‘‘ یعنی بیوی سے صحبت کرنا۔ {وَلَا فُسُوْقَ} ’’اور نہ کوئی بے حکمی (درست) ہے‘‘ یعنی مسلمانوں کو برا بھلا کہنا۔ {وَلَا جِدَالَ} ’’ اور نہ کسی قسم کا نزاع زیبا ہے‘‘ یعنی لڑائی جھگڑا کرنا۔ {وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْہُ اللّٰہُ وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی}’’ اور جو نیک کام کروگے خدائے تعالیٰ کو اس کی اطلاع ہوتی ہے اور (جب حج کو جانے لگو) خرچ ضرور لے لیا کرو، کیوںکہ سب سے بڑی بات خرچ میں (گداگری سے) بچا رہنا ہے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّکُمْ} ’’تم کو اس میںذرا بھی گناہ نہیں کہ(حج میں) معاش کی تلاش کرو۔‘‘ چناںچہ اللہ نے حاجیوں کو تجارت کی اجازت دے دی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {فَاِذَا اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ}’’ پھر جب تم لوگ عرفات سے واپس آنے لگو‘‘ اور عرفات ٹھہرنے کی وہ جگہ ہے جہاں حاجی لوگ سورج کے غروب تک وقوف کرتے ہیں، پھر وہاں سے واپس آتے ہیں۔ {فَاذْکُرُوا اللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ}’’ تو مشعرِ حرام کے پاس (مزدلفہ میں شب کو قیام کرکے) خدائے تعالیٰ کو یاد کرو۔‘‘ یہ مزدلفہ کے وہ پہاڑ ہیں جہاں حاجی رات کو ٹھہر تے ہیں۔ {وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ھَدٰکُمْ} ’’اور اس طرح یاد کرو جس طرح تم کو بتلا رکھا ہے۔ ‘‘ حضرت ابنِ زبیر ؓ نے فرمایا: یہ حکم عام نہیں ہے بلکہ صرف مکہ شہر والوں کے لیے ہے، کیوںکہ مکہ والے مزدلفہ میں وقوف کر تے تھے اور عرفات نہیں جاتے تھے، اس لیے وہ مزدلفہ سے واپس آتے تھے، جب کہ باقی لوگ عرفات جاتے تھے اور وہاں سے واپس آتے تھے، تو اللہ نے ان کے فعل پر انکار کرتے ہوئے فرمایا: {ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ} پھر تم سب کو ضرور ہے کہ اسی جگہ ہو کر واپس آئو جہاں اور لوگ جاکر وہاں سے واپس آتے ہیں۔ یعنی وہاں سے واپس آکر اپنے مناسکِ حج پورے کرو۔ زمانۂ جاہلیت کے حاجیوں کا دستور یہ تھا کہ وہ حج سے فارغ ہوکر اپنے آباء واجداد کے کارناموں کا ذکر کر کے ایک دوسرے پر فخر کرتے تھے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں: {فَاذْ کُرُوا اللّٰہَ کَذِکْرِکُمْ اٰبَآئَکُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِکْرًاط فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَمَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍآیت کا نشان وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ آیت کا نشان}1 تو حق تعالیٰ کا ذکر کیا کرو جس طرح تم اپنے آباء واَجداد کا ذکر کیا کرتے ہو، بلکہ یہ ذکر اس سے (بدرجہا) بڑھ کر ہے۔ سو بعضے آدمی (جوکہ کافر ہیں)ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہم کو (جوکچھ دیناہو) دنیا میں دے دیجیے اور ایسے شخص کو آخرت میں (بوجہ انکارِ آخرت کے) کوئی حصہ نہ ملے گا۔ اور بعضے آدمی (جو کہ مؤمن ہیں) ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہم کو دنیا میں بھی بہتری عنایت کیجیے اور آخرت میں بھی بہتری دیجیے اور ہم کو عذابِ دوزخ سے بچائیے۔