حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت مُجمِّع بن جاریہ انصاری ؓ پورا قرآن پڑھے ہوئے قاریوں میں سے تھے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم صلحِ حدیبیہ کے وقت موجود تھے۔ جب ہم وہاں سے واپس ہوئے تو لوگ اونٹوں کو دوڑا رہے تھے۔ کچھ لوگوں نے دوسرے سے پوچھا کہ ان لوگوں کو کیا ہوا؟ (یہ اونٹ اتنے تیز کیوں دوڑارہے ہیں؟) ان لوگوں نے بتایا کہ حضورﷺ پر وحی نازل ہوئی ہے۔ تو ہم بھی اُن لوگوں کے ساتھ سواریاں تیزدوڑانے لگے۔ جب حضورﷺ کے پاس پہنچے تو حضورﷺ کُراعُ الغمیم مقام کے نزدیک اپنی سواری پر تشریف فرماتھے۔ آہستہ آہستہ لوگ آپ کے پاس جمع ہو گئے۔ پھر آپ نے { اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًاآیت کا نشان} پڑھ کر سنائی۔ حضورﷺ کے پاس صحابہ میں سے ایک صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا یہ فتح تھی؟ حضورﷺ نے فرمایا: ہاں، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد (ﷺ) کی جان ہے! یہ یقینا زبردست فتح تھی۔آگے او ربھی حدیث ہے۔2 حضرت براء ؓ فرما تے ہیں کہ تم لوگ فتح مکہ کو بڑی فتح سمجھتے ہو۔ فتحِ مکہ بھی بڑی فتح ہے، لیکن ہم صلحِ حدیبیہ کے دن جو بیعتُ الرضوان ہوئی تھی اسے سب سے بڑی فتح سمجھتے ہیں۔ آگے اور بھی حدیث ہے۔3 حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں: ہم بڑی فتح صرف صلحِ حدیبیہ کو ہی شمار کر تے تھے۔ حضرت قیس بن حجّاج اپنے ایک استاد سے نقل کر تے ہیں کہ جب مسلمانوں نے مصر فتح کر لیا اور مصری مہینوں میں سے بُونہ نامی مہینہ شروع ہو گیا، تو مسلمانوںکے امیر حضرت عمرو بن عاص ؓ کے پاس مصر والے آئے اور انھوں نے کہا: اے امیر صاحب! ہمارے اس دریائے نیل کے جاری رہنے کے لیے ایک پرانی رسم ہے۔ وہ رسم ہم ادانہ کر یں تودریائے نیل کا پانی خشک ہوجاتا ہے۔ حضر ت عمرو نے فر مایا: وہ رسم کیا ہے؟ مصر والوں نے کہا: وہ رسم یہ ہے جب اس (بُونہ) مہینے کی بارہ تاریخ ہو جاتی ہے تو ہم ایک کنواری لڑکی کو تلاش کرتے ہیں جو اپنے ماں باپ کے پاس رہتی ہو۔ اس کے ماںباپ کو (بہت سامال دے کر) راضی کر تے ہیں، پھر اس لڑکی کو سب سے عمدہ زیور اور کپڑے پہنا تے ہیں، اور پھر اسے دریائے نیل میں ڈال دیتے ہیں۔ حضرت عمرو ؓ نے ان سے فرمایا: یہ کام اسلام میں نہیں ہو سکتا۔ اسلام اپنے سے پہلے کے تمام غلط کا موں کو ختم کر دیتا ہے۔ وہ مصری لوگ بُونہ مہینے میں وہاں ہی رہے۔ دریائے نیل میں پانی بالکل نہیں تھا، بالآخر مصریوں نے مصر چھوڑ کرجانے کا ارادہ کر لیا۔ حضرت عمرو نے حضرت عمر بن خطابؓ کو خط میں یہ ساری تفصیل لکھ کر بھیجی۔ حضرت عمر نے جواب میں یہ لکھا کہ تم نے جو کیا وہ بالکل ٹھیک ہے اور میں اس خط کے ساتھ ایک پرچہ بھیج رہا ہوں اسے دریائے نیل میں ڈال دو۔ پھر آگے اور حدیث بھی ہے جیسے کہ تائیداتِ غیبیہ کے باب میں دریاؤں کے مسخر ہونے کے ذیل میں آئے گی۔ اس کے آخر میں یہ ہے کہ حضرت عمروؓ نے وہ پرچہ دریائے نیل میں ڈال دیا (یہ جمعہ کا دن تھا)۔ ہفتہ کے دن صبح کو لوگوں نے جاکر دیکھا تو وہ حیران رہ گئے کہ ایک ہی رات میں اللہ تعا لیٰ نے دریائے نیل میں سولہ ہاتھ پانی چڑھا دیا تھا، اور یوں اللہ تعالیٰ نے مصر والوں کی اس غلط رسم کو ختم کرا دیا اور آج تک وہ رسم ختم ہے (اس کے بغیر ہی دریائے نیل میں مسلسل