حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
برائی سے روکنے سے نہ رزق کم ہوتاہے اور نہ موت جلدی آتی ہے۔ آسمان سے تقدیر کے فیصلے بارشوں کے قطروں کی طرح اترتے ہیں۔ چناںچہ ہر انسان کے اہل وعیال، مال وجان کے بارے میں کم ہوجانے یا بڑھ جانے کا جو فیصلہ اللہ نے مقدر میں لکھا ہوا ہے وہ آسمان سے اترتاہے۔ اب جب تمہارے اہل وعیال، مال وجان میں کسی قسم کا نقصان ہواور تمھیں دوسروں کے اہل وعیال مال وجان میں نقصان کے بجائے اور اضافہ نظر آئے، تو اس سے تم فتنہ میں نہ پڑجانا۔ مسلمان آدمی اگر دَناء ت وکمینگی کا اِرتکاب کرنے والا نہ ہو تو اسے جب بھی یہ نقصان یاد آئے گا وہ عاجزی، انکساری، دعا اور اِلتجا کا مظاہرہ کرے گا (اور یوں اسے باطنی نفع ہوگا)، اور کمینے لوگوں کو اس پر بہت غصہ آئے گا۔ جیسے کہ کامیاب ہونے والا جُوئے باز تیروں سے جوا کھیلنے میں پہلی دفعہ ہی ایسی کامیابی کا انتظار کرتاہے جس سے خوب مال ملے اور تاوان وغیرہ اسے نہ دینا پڑے، ایسے ہی خیانت سے پاک مسلمان آدمی جب اللہ سے دعا کرتاہے تو دو اچھائیوں میں سے ایک کی اسے اُمید ہوتی ہے (کہ یاتو جو مانگاہے وہ دنیامیں مل جائے گا اور اگر وہ نہ ملا تو پھر اس دعا کے دنیا میں قبول نہ ہونے کے بدلہ میں آخرت میں اسے ثواب ملے گا) جو اللہ کے پاس ہے وہ اس کے لیے بہتر ہے۔ یا پھر اللہ اسے مال دیں گے اور اس کے اہل وعیال میں خوب کثرت ہوگی اور وہ خوب مال دار ہوگا۔ کھیتی دوطرح کی ہے: (ایک دنیا کی دوسری آخرت کی) دنیا کی کھیتی مال اور بیٹے ہیں، اور آخرت کی کھیتی نیک اعمال ہیں۔ اور کبھی اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو دونوں قسم کی کھیتیاں عطافرماتے ہیں۔ حضرت سفیان بن عیینہ کہتے ہیں: حضرت علی بن ابی طالب ؓ کے علاوہ اور کون ایسا ہے جو یہ بات اتنے اچھے طریقہ سے کہہ سکے؟1 ’’البدایہ‘‘ کی روایت اسی جیسی ہے اور اس کے آخر میں یہ ہے: یا تو اللہ اس کی دعا دنیا میں پوری کردیں گے اور وہ بہت زیادہ مال اور اولاد والا ہوجائے گا، خاندانی شرافت اور دین کی نعمت بھی اسے حاصل ہوگی، یا پھر اسے اس دعا کا بدلہ آخرت میں دیں گے، اور آخرت (دنیا سے ہزار درجہ) بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ کھیتیاں دو ہیں: دنیا کی کھیتی مال اور تقویٰ ہے (بظاہر مال اور اولاد ہے)، اور آخرت کی کھیتی باقی رہنے والے اعمالِ صالحہ ہیں۔1 حضرت ابو وائل کہتے ہیں: ایک مرتبہ حضرت علیؓ نے کوفہ میں لوگوں میں بیان فرمایا۔ میں نے انھیں اس بیان میں یہ کہتے ہوئے سنا: اے لوگو! جو جان بوجھ کر محتاج بنتاہے وہ محتاج ہو ہی جاتاہے۔ اور جس کی عمر بہت زیادہ ہوجاتی ہے وہ مختلف بیماریوں اور کمزوریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ جو بلا اور آزمایش کے لیے تیاری نہیں کرتا جب اس پر آزمایش آتی ہے تو وہ صبر نہیں کرسکتا۔ جو کسی چیز پر قابو پالیتا ہے وہ اپنے کو دوسروں پر ترجیح دیتاہے۔ جو کسی سے مشورہ نہیں کرتا اسے ندامت اٹھانی پڑتی ہے۔ اور اس گفتگو کے بعد یہ فرمایاتھا: عن قریب ایسا زمانہ آئے گا کہ اسلام کا صرف نام اور قرآن کا صرف ظاہری نشان باقی رہ جائے گا۔ اور یہ بھی فرمایا تھا: غور سے سنو! آدمی کو سیکھنے میں حیا نہیں کرنی چاہیے اور جس آدمی سے ایسی بات پوچھی جائے جسے وہ نہیں جانتا تو اسے یہ کہنے میں حیا نہیں کرنی چاہیے کہ میں نہیں جانتا۔ تمہاری مسجدیں ویسے تو اس دن آباد ہوں گی، لیکن تمہارے دل اور جسم اجڑے ہوئے اور ہدایت سے خالی ہوں گے۔ آسمان کے