حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
انھیں دیکھا ہے)۔ حضرت سہل بن حُنیف ؓ نے (اس آدمی کو) کہا:اپنے آپ کو قصور وار ٹھہراؤ، کیوںکہ ہم نے صلحِ حدیبیہ کے دن جس دن حضورﷺ اور مشرکوں کے درمیان صلح ہوئی تھی، یہ دیکھا تھا کہ اگر ہم لڑنا مفید سمجھتے تو ہم مشرکوں سے لڑسکتے تھے (لیکن ہم نے مفید نہ سمجھا۔ صلح کے بعد) حضرت عمر ؓ نے (حضورﷺ کی خدمت میں) عرض کیا:کیا ہم حق پر اور یہ مشرک باطل پر نہیں ہیں؟ کیا ہمارے شہید جنت میں اور ان کے مقتول جہنم میں نہیں جائیں گے؟ حضورﷺ نے فرمایا: کیوں نہیں۔ حضرت عمر نے کہا: پھر ہمیں ہمارے دین میں کیوں دبایا جارہا ہے؟ اور ابھی اللہ نے ہمارے درمیان فیصلہ نہیں فرمایا تو ہم واپس کیوں جارہے ہیں؟ حضورﷺ نے فر مایا: اے ابنِ خطاب! میں اللہ کا رسول ہوں،مجھے اللہ تعالیٰ ہرگز ضائع نہیں ہونے دیںگے۔ (اس سے حضرت عمر کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا، بلکہ) وہ غصہ میں بھرے سیدھے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاس گئے اوران سے کہا: اے ابوبکر! کیا ہم حق پر اور یہ مشرک باطل پر نہیں؟ حضرت ابوبکر نے فرمایا: اے ابنِ خطاب! یہ اللہ کے رسول ﷺ ہیں اور اللہ تعالیٰ انھیں ہر گز ضائع نہیں ہونے دیںگے۔ پھر سورۃ الفتح نازل ہوئی۔1 ایک روایت میں یہ ہے کہ حضرت سہل بن حُنیف ؓ نے کہا: اے لوگو! اپنی رائے کو ناقص سمجھو، میں نے حضرت ابو جندل ؓ (کے مشرکوں کی طرف واپس کیے جانے) کے دن دیکھا (کہ جب حضورﷺ نے انھیں مشرکوں کی طرف واپس کرنے کو مان لیا تو مجھے اس سے اتنی زیادہ گرانی ہوئی) کہ حضورﷺ کی بات کے انکا رکی اگر مجھ میں طاقت ہوتی تو اس دن میں ضرور انکا ر کردیتا۔ ایک روایت میں ہے کہ پھر سورتِ فتح نازل ہوئی تو حضورﷺ نے حضرت عمر بن خطابؓ کو بلایا اور انھیں سورتِ فتح پڑھ کر سنائی۔2 اور ’’دعوت الی اللہ‘‘ کے باب میں صلحِ حدیبیہ کے قصہ میں ’’بخاری‘‘ کی لمبی حدیث گذرچکی ہے جسے حضرت مِسور بن مخرمہ اور حضرت مروان ؓ روایت کرتے ہیں۔ اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت ابوجندلؓ نے کہا: اے مسلمانو! میں تو مسلمان ہوکر آیا تھا اور اب مجھے مشرکوں کی طرف واپس کیا جارہا ہے۔ کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو کہ میں کتنی مصیبتیں اٹھا رہا ہوں؟ اور واقعی انھیں اللہ کی خاطر سخت مصیبتیں پہنچائی گئی تھیں۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضو ر ﷺ کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ کیا آپ اللہ کے بر حق نبی نہیں ہیں؟ حضو ر ﷺ نے فرمایا: ہو ں۔ پھر میں نے کہا کہ کیا ہم حق پر اور ہمارا دشمن باطل پر نہیں ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، تم ٹھیک کہتے ہو۔ میں نے عرض کیا: پھر ہم کیوں اتنا دب کر صلح کریں؟ آ پ نے فرمایا: میں اللہ کا رسول ہوں اس کی نافر مانی نہیں کر سکتااور وہی میرا مدد گار ہے۔ میں نے کہا: کیا آپ نے ہم سے یہ نہیں فرمایا تھا کہ ہم بیتُ اللہ جاکر اس کا طواف کریں گے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، میں نے کہا تھا، لیکن کیا میں نے تم کو یہ بھی کہاتھا کہ ہم اسی سال بیتُ اللہ جائیں گے؟ میں نے عرض کیا: نہیں۔ آپ نے فرما یا: تم بیتُ اللہ ضرور جاؤگے اور اس کا طواف کروگے۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابوبکر ؓ کے پاس گیا اور ان سے کہا: اے ابوبکر! کیا یہ اللہ کے بر حق نبی نہیں ہیں؟ انھوں نے