حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہے!میں اسے اس گورنر سے ضرور بدلہ لے کر دوں گا۔ غور سے سنو! مسلمانوں کی پٹائی نہ کرو ورنہ تم انھیں ذلیل کردوگے۔ اور اسلامی سرحد سے انھیں گھر واپس جانے سے نہ روکو ورنہ تم انھیں فتنہ میں ڈال دو گے۔ اور ان کے حقوق ان سے نہ رو کو (بلکہ ادا کرو) ورنہ تم انھیں ناشکری میں مبتلا کردوگے۔ اور گھنے درختوں والے جنگل میں انھیں لے کر مت پڑائوڈالنا ورنہ (بکھر جانے کی وجہ سے دشمن کا دائو چل جائے گا اور) وہ ضائع ہوجائیں گے۔1 حضرت ابوالعجفاء کہتے ہیں: ایک مرتبہ حضرت عمر ؓ نے بیان میں فرمایا: غور سے سنو! عورتوں کے مہر بہت زیادہ مقررنہ کرو، کیوںکہ اگر مہر کا زیادہ ہونا دنیا میں عزت کی چیز ہوتی یا اللہ کے ہاں تقویٰ والاکام شمار ہوتا تو نبی کریم ﷺ تم سے زیادہ اس کے حق دار ہوتے۔ حضور ﷺ نے اپنی کسی بیوی یا بیٹی کا مہر بارہ اوقیّہ یعنی چار سو اَسّی درہم سے زیادہ مقرر نہیں فرمایا۔ تم لوگ مہر بہت زیادہ مقرر کر لیتے ہو، لیکن جب دینا پڑتاہے تو پھر دل میں اس عورت کی دشمنی محسوس کرتے ہو۔ تم مہر دیتے بھی ہو، لیکن اس عورت سے کہتے ہو کہ مجھے تیرے مہر کی وجہ سے مشک بھی اٹھانی پڑی اور بہت مشقت بھی۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ تمہارے غزوات میں جو آدمی قتل ہو جاتاہے تم اس کے بارے میں کہتے ہو: فلاں شہید ہو کر قتل ہوا، یا فلاں نے شہید ہوکر وفات پائی (بغیر تحقیق کے کسی کے شہید ہونے کا حتمی فیصلہ نہ کیا کرو)، کیوںکہ ہوسکتا ہے کہ وہ تجارت کے ارادے سے ساتھ آیا ہو، اور اس نے اپنی سواری کے آخری حصے پر اور کجاوے کی ایک جانب سونا چاندی لاد رکھا ہو (وہ تجارت والا اللہ کے راستے میں نہیں ہے)۔ اس لیے یہ بات نہ کہا کرو، بلکہ جیسے حضورﷺ نے فرمایا ویسے کہاکرو کہ جو آدمی اللہ کے راستہ میں قتل ہوا یا فوت ہوا وہ جنت میں جائے گا۔1 حضرت مسروق کہتے ہیں: ایک دن حضرت عمر بن خطابؓ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا: اے لوگو! عورتوں کے مہر زیادہ کیوں مقرر کر تے ہو؟ حضورﷺ اور آپ کے صحابہ کے زمانے میں مہر چار سو درہم یا اس سے کم ہوا کر تا تھا۔اگر مہر بہت زیادہ مقرر کر نا اللہ کے ہاں تقویٰ کا یا عزت کا کام ہوتا تو آپ لوگ اس میں حضورﷺ اور صحابہ سے آگے نہ نکل سکتے۔2 نکاح کے باب میں اس بیان کی چند روایات ہم ذکر کر چکے ہیں۔ ایک مرتبہ حضرت عمر ؓ نے جابیہ شہر میں بیان فرمایا پہلے اللہ کی حمد وثنا بیان کی پھر فرمایا: جسے اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ حضرت عمر ؓ کے سامنے ایک پادری بیٹھا ہوا تھا اس نے فارسی میں کچھ کہا۔ حضرت عمر نے اپنے ترجمان سے پوچھا:یہ کیا کہہ رہاہے؟ ترجمان نے بتایا: یہ کہہ رہاہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو گمراہ نہیں کرتے۔ حضرت عمر نے فرمایا: او اللہ کے دشمن! تم غلط کہتے ہو، بلکہ اللہ نے تمھیں پیدا کیا اور اسی نے تمھیں گمراہ کیا اور ان شاء اللہ وہ تمھیں دوزخ کی آگ میں داخل کرے گا۔ اگر تمہارے (ذمی ہونے کے) عہد کا پاس نہ ہوتا تو میں تمہاری گردن اڑا دیتا۔ پھرفرمایا: اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم ؑ کو پیدا فرمایا تو اُن کی ساری اولاد ان کے سامنے بکھیر دی، اور جنت والوں کے نام اور ان کے اعمال (لوحِ محفوظ میں) اسی وقت لکھ دیے، اور اسی طرح دوزخ والوں کے نام اور اُن کے اعمال بھی اسی وقت لکھ دیے، پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ لوگ اس (جنت) کے لیے