حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کیا، ہمیشہ اسی پر قائم رہے۔2 حضرت شعبیکہتے ہیں: جب حضرت عمر بن خطابؓ خلیفہ بنے تو وہ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ مجھے ایسا نہیں دیکھنا چاہتے کہ میں اپنے آپ کو منبر کی اس جگہ بیٹھنے کا اہل سمجھوں جہاں ابوبکر ؓ بیٹھا کر تے تھے۔ یہ کہہ کر حضرت عمر ایک سیڑھی نیچے ہو گئے۔ پھر اللہ کی حمد وثنا بیان کی، پھر فرمایا: قرآن پڑھو، اس کے ذریعہ سے تم پہچانے جائو گے۔ اور قرآن پر عمل کرو، اس سے تم قرآن والوں میں سے ہوجائو گے۔ اور اعمال نامہ کے تو لے جانے سے پہلے پہلے تم خود اپنا موازنہ کر لو اور اس دن کی بڑی پیشی کے لیے اپنے آپ کو(نیک اعمال) سے آراستہ کرلو جس دن تم اللہ کے سامنے پیش کیے جائوگے اور تمہاری کوئی پوشیدہ سے پوشیدہ بات چھپی نہیں رہ سکے گی۔ اور کسی حق والے کا حق اتنا نہیں بنتا کہ اس کی بات مان کر اللہ کی نافرمانی کی جا ئے۔ غور سے سنو!میں اللہ کے مال یعنی بیت المال میں سے اتنا لوںگا جتنا یتیم کے والی کو یتیم کے مال میں سے ملتا ہے۔ اگر مجھے اس کی بھی ضرورت نہ ہوئی تو میں یہ بھی نہیں لوں گا، اور اگر ضرورت ہوئی تو کام کرنے والے کو عام طور سے جتنا ملتا ہے اس کے مطابق لوںگا۔1 حضرت عمر ؓ نے ایک بیان میں فرمایا: اللہ تعالیٰ کے تم سے حساب لینے سے پہلے پہلے تم اپنا محا سبہ کر لو، اس سے اللہ کا حساب آسان ہو جائے گا۔ اور اعمال نامہ کے تو لے جانے سے پہلے پہلے تم اپنا موازنہ کرلو اور اس دن کی بڑی پیشی کے لیے اپنے آپ کو (نیک اعمال سے) آراستہ کرلو جس دن تم اللہ کے سامنے پیش کیے جائو گے اور تمہاری کوئی پوشیدہ سے پوشیدہ بات چھپی نہیں رہ سکے گی۔2 حضرت ابو فِراس کہتے ہیں: ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے بیان فرمایا اور ارشاد فرمایا: اے لوگو! غور سے سنو! پہلے ہمیں آپ لوگوں کے اندرونی حالات اس طرح معلوم ہوجاتے تھے کہ نبی کریمﷺ ہمارے درمیان تشریف فرماتھے اور وحی نازل ہوا کر تی تھی اور اللہ تعالیٰ ہمیں آپ لوگوں کے حالات بتادیا کرتے تھے (کہ کون مؤمن ہے کون منافق؟ اور کس مؤمن کا درجہ بڑاہے اور کس کا چھوٹا؟) غور سے سنو! حضورﷺ اب تشریف لے جاچکے اور وحی کا سلسلہ بھی بند ہوچکا، اس لیے اب ہمارے لیے آپ لوگوں کے حالات و درجات معلوم کرنے کا طریقہ وہ ہوگا جواَب ہم بتانے لگے ہیں۔ آپ میں سے جو خیر کو ظاہر کرے گا ہم اس کے بارے میں اچھا گمان رکھیں گے اور اسی وجہ سے اس سے محبت کریں گے، اور جو ہمارے سامنے شرظاہر کرے گا ہم اس کے بارے میں برا گمان رکھیں گے اور اسی وجہ سے اس سے بغض رکھیں گے۔ اور آپ لوگوں کے پوشیدہ اور اندرونی حالات آپ کے اور آپ کے ربّ کے درمیان ہوں گے، یعنی ہم تو ہر ایک کے ظاہر کے مطابق اس کے متعلق فیصلہ کریں گے۔ غور سے سنو! ایک وقت تو ایسا تھا کہ مجھے اس بات کا یقین تھا کہ ہر قرآن پڑھنے والا صرف اللہ کے لیے اور اللہ کے ہاں کی نعمتوں کے لینے کے ارادے سے پڑھ رہا ہے، لیکن اب آخر میں آکر کچھ ایسا اندازہ ہورہا ہے کہ کچھ لوگ جو کچھ انسانوںکے پاس ہے اسے لینے کے ارادے سے قرآن پڑھتے ہیں، تم قرآن کے پڑھنے سے اور اپنے اعمال سے اللہ کی رضامندی کا ہی ارادہ کرو۔ توجہ سے سنو! اللہ کی قسم! میں اپنے گورنر آپ لوگوں کے پاس اس لیے نہیں بھیجتا کہ وہ آپ لوگوں کی کھا لوں کی پٹائی کریں یا آپ لوگوں کے مال لے لیں، بلکہ اس لیے بھیجتا ہوں تا کہ وہ آپ لوگوں کو دین اور سنت سکھا ئیں۔ جو گورنر کسی کے ساتھ اس کے علاوہ کچھ اور کرے وہ اس گورنر کی بات میرے پاس لے کر آئے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان