حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور جلد دوم صفحہ؟؟؟ پر ’’طبرانی‘‘ کی روایت عیسیٰ بن عطیہ کے حوالے سے گزرچکی ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ نے بیان میں فرمایا: اے لوگو! لوگ اسلام میں خوشی اور ناخوشی دونوں طرح داخل ہوئے ہیں، لیکن اب وہ سب اللہ کی پناہ اور اس کے پڑوس میں ہیں، اس لیے تم اس کی پوری کو شش کرو کہ اللہ تعالیٰ تم سے اپنی ذمہ داری کا کچھ بھی مطالبہ نہ کرے (یعنی کسی مسلمان کو کسی طرح تکلیف نہ پہنچائو)۔ میرے ساتھ بھی ایک شیطان رہتاہے، جب تم دیکھو کہ مجھے غصہ آگیاہے تو پھر تم مجھ سے الگ ہوجائو کہ کہیںمیںتمہارے بالوںاور کھالوں کو تکلیف نہ پہنچادوں۔ اے لوگو! اپنے غلاموں کی آمدنی کی تحقیق کرلیاکرو کہ حلال ہے یا حرام،اس لیے کہ جس گوشت کی پرورش حرام مال سے ہووہ جنت میں داخل ہونے کے لائق نہیں۔ حضرت عاصم بن عدی کہتے ہیں: حضور ﷺ کی وفات کے اگلے دن حضرت ابوبکر ؓ کی طرف سے ایک آدمی نے اعلان کیا کہ حضرت اُسامہ ؓ کے لشکر کی روانگی کا کام مکمل ہوجاناچاہیے۔غورسے سنو! اب حضرت اُسامہ کے لشکر کا کوئی آدمی مدینہ میں باقی نہیں رہنا چاہیے، بلکہ جُرف میں جہاں ان کے لشکر کا پڑائو ہے وہاں پہنچ جاناچاہیے۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر لوگوں میںبیان کے لیے کھڑے ہوئے، پہلے اللہ کی حمدوثنابیان فرمائی پھر فرمایا: اے لوگو! میںتو تمہارے جیساہی ہوں، مجھے معلوم تو نہیں لیکن ہوسکتاہے کہ تم لوگ مجھے اس چیز کا مکلّف بنائو جو صرف حضورﷺ کے بس میں تھی (اور میرے بس میں نہیں)۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد (ﷺ) کو تمام جہانوں پر فوقیت عطافرمائی تھی اور انھیں چناتھا اور انھیں تمام آفات سے حفاظت عطافرمائی تھی، اور میں (ان ہی کے) پیچھے چلنے والاہوں اپنی طرف سے نئی چیزیں گھڑنے والا نہیں ہوں۔ اگر میں سیدھا چلوں تو تم میرے پیچھے چلو اور اگر میں ٹیڑھا چلوں تو تم لوگ مجھے سیدھا کردو۔ حضورﷺ کی شان تو یہ تھی کہ جب آپ کا انتقال ہوا تو اس وقت اُمّت میں ایک آدمی بھی ایسا نہیں تھا جو کوڑے کی ماریا اس سے بھی کم ظلم کا مطالبہ کررہاہو۔ غورسے سنو! میرے ساتھ بھی ایک شیطان لگاہواہے جو میرے پاس آتارہتاہے۔ جب وہ میرے پاس آئے تو مجھ سے تم لوگ الگ ہوجائو کہیں میں تمہاری کھالوں اور بالوں کو تکلیف نہ پہنچادوں۔تم لوگ صبح اور شام اس موت کے منہ میں ہو جس کا تمھیں علم نہیں کہ کب آ جا ئے گی۔تم اس کی پوری کوشش کرو کہ جب بھی تمہاری موت آئے تو تم اس وقت نیک عمل میں لگے ہوئے ہو اور تم ایسا صرف اللہ کی مدد سے ہی کر سکتے ہو۔ لہٰذا جب تک موت نے مہلت دے رکھی ہے اس وقت تک تم لوگ نیک اعمال میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو، اس سے پہلے کہ موت آ جائے اور عمل کر نے کا موقع نہ رہے،کیوںکہ بہت سے لوگوں نے موت کو بھلا رکھا ہے اور اپنے اعمال دوسروں کے لیے کردیے ہیں، لہٰذا تم ان جیسے نہ بنو۔ خوب کوشش کرو اور مسلسل کوشش کرو اور (سستی سے کام نہ لو بلکہ) جلدی کرو اور جلدی کرو، کیوںکہ موت تمہارے پیچھے لگی ہوئی ہے جو تمھیں تلاش کر رہی ہے اور اس کی رفتار بہت تیزہے، لہٰذا موت سے چوکنّے رہو اور آباء واَجداد، بیٹوں اور بھائیوں(کی موت) سے عبرت حاصل کرو۔ زندہ لوگوں کے ان نیک اعمال پر رشک کرو جن پر تم مُردوں کے بارے میںرشک کرتے ہو، یعنی دنیاوی چیزوں میں زندہ لوگوں پر رشک نہ کرو۔1 حضرت سعید بن ابی مریم کہتے ہیں: مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ جب حضرت ابوبکر ؓ خلیفہ بنائے گئے تو آپ منبر پر تشریف فرماہوئے۔ پہلے اللہ کی حمد وثنا بیان کی پھر فرمایا: اللہ کی قسم! اگر ہمارے ہوتے ہوئے تمہارے اجتماعی کاموں کے خراب ہوجانے کا خطرہ نہ ہوتاتو (میں خود خلیفہ نہ بنتا،بلکہ) میں یہ چاہتا کہ جو تم میں