حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میری تو دلی تمناہے کہ آپ لوگوں میں سے کوئی آدمی اس خلافت کا بوجھ اٹھا لیتا اور میں اس ذمہ داری سے بچ جاتا۔ حضرت حسن کہتے ہیں: اللہ کی قسم! حضرت ابوبکر نے یہ تمنا والی بات سچے دل سے کہی تھی (وہ واقعی خلیفہ نہیں بننا چا ہتے تھے)۔ پھر حضرت ابوبکر نے فرمایا: اگر تم لوگ یوں چاہو کہ جس طرح اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے سے اپنے نبی ﷺ کو سیدھے راستے پر لے آیا کر تے تھے اسی طرح مجھے بھی لے آیا کریں، یہ بات تو مجھے حاصل نہیں ہے، میں تو عام انسان ہی ہوں، اس لیے تم لوگ میری نگرانی رکھو۔1 حضرت حسن کہتے ہیں: حضرت ابوبکر ؓ نے ایک مرتبہ بیان فرمایا اور ارشاد فرمایا: غور سے سنو! اللہ کی قسم! میں آپ لوگوں میں سب سے بہتر نہیں ہوں اور میں اپنے لیے اس مقامِ خلافت کو پسند نہیں کر تاتھا۔ مجھے اس کی خواہش نہیں تھی، بلکہ میری خواہش تھی کہ آپ لوگوںمیں سے کوئی میرے بجائے خلیفہ بن جاتا۔ کیا آپ لوگوںکا خیال یہ ہے کہ میں آپ لوگوں میں بعینہٖ حضورﷺ والے طریقہ پر عمل کرلوںگا؟ تویہ خیال بالکل غلط ہے،میں ایسا نہیں کرسکوںگا، کیوںکہ حضورﷺ کی تو وحی کے ذریعہ ہر غلط بات سے حفاظت ہوجاتی تھی اور انھیں تو عصمتِ خداوندی حاصل تھی اور ان کے ساتھ خاص فرشتہ ہر وقت رہتا تھا۔ میرے ساتھ تو شیطان لگاہواہے جو میرے پاس آتارہتاہے۔جب مجھے غصہ آجائے تو مجھ سے بچ کر رہنا، کہیں میں آپ لوگوںکی کھالوں اور بالوں پر اثراندازنہ ہوجائوں۔غورسے سنو! آپ لوگ میری نگرانی رکھو، اگر میں سیدھاچلوں تو میری مدد کرنا اور اگر میں ٹیڑھا چلوں تو مجھے سیدھا کردینا۔ حضرت حسنکہتے ہیں: ایسا زبردست بیان کیا تھا کہ اللہ کی قسم!اس کے بعد ویسا بیان تو کبھی ہوا ہی نہیں۔1 ایک روایت میں یہ ہے کہ میں تو ایک عام انسان ہوں، کام ٹھیک بھی کرلیتاہوں اور غلط بھی ہو جاتے ہیں۔ جب میں ٹھیک کام کروں تو آپ لوگ اللہ کی تعریف کریں (کیوںکہ اسی کے کرم سے کام ٹھیک ہوا) اور جب غلط ہوجائے تو مجھے سیدھاکردینا۔2 حضرت قیس بن ابی حازم کہتے ہیں: حضورﷺ کی وفات کے ایک مہینہ بعد میں حضور ﷺ کے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے بعد حضرت قیس نے حضرت ابوبکر کی خلافت کا قصہ ذکرکیا۔ اس کے بعد کہتے ہیں:تمام لوگوں کو مسجد ِنبوی میں جمع کرنے کے لیے یہ اعلان کیا گیا: اَلصَّلَاۃُ جَامِِعَۃٌ ’’یعنی سب لوگ نماز مسجد ِنبوی میں اکٹھے پڑھیں‘‘ (مدینہ کی باقی نو مسجدوں میں سے کسی اورمیں نہ پڑھیں)۔ اور پھر جب لوگ جمع ہوگئے تو حضرت ابوبکر اس منبر پر تشریف فرماہوئے جو اُن کے بیان اور خطبے کے لیے بنایا گیا تھا۔ یہ حضورﷺ کی وفات کے بعد اسلام میں حضرت ابوبکر کا پہلا بیان تھا۔ انھوں نے اللہ کی حمد وثنا بیان کی اور پھر فرمایا: اے لوگو! میری آرزو تو یہ ہے کہ کوئی اور میری جگہ خلیفہ بن جائے۔ اگر تم لوگ مجھ سے مطالبہ کرو کہ میں عین تمہارے نبیﷺ کی سنت کے مطابق چلوں تو یہ میرے بس میں نہیں ہے،کیوںکہ حضور ﷺ تو معصوم تھے، اللہ نے ان کی شیطان سے مکمل حفاظت فرمارکھی تھی اور ان پر آسمان سے وحی اترتی تھی (اور یہ دونوں باتیں مجھے حاصل نہیں ہیں، اس لیے میں بالکل ان جیسا نہیں ہوسکتا)۔3