حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اﷲ کے بندوں میں سے ایک بندے کو یہ اختیار دیا گیا کہ یا تو وہ دنیا میں رہ لے یا اﷲ کے ہاں جو اجر وثواب ہے اسے لے لے۔ اس بندے نے اللہ کے ہاں کے اجر و ثواب کو اختیار کر لیا (یہاں اس بندے سے مراد خود حضورﷺ ہیں اور مطلب یہ ہے کہ آپ اس دنیا سے جلد تشریف لے جانے والے ہیں)۔ حضورﷺ کے اس فرمان کا مطلب حضرت ابوبکرؓکے علاوہ اور کوئی نہ سمجھ سکا اور اس پر وہ رونے لگے اور عر ض کیا: ہم اپنے ماں باپ اور آل اولاد سب آپ پر قربان کر تے ہیں! حضور ﷺ نے فرمایا: (اے ابو بکر!) ذرا آرام سے بیٹھے رہو (مت رو)، میرے نزدیک ساتھ رہنے اور مال خرچ کرنے کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے اَفضل ابنِ ابی قحافہ (یعنی حضرت ابو بکر صدیق ؓ) ہیں۔ مسجد میںجتنے دروازے کھلے ہوئے ہیں سب بند کردو، صرف ابوبکر کادروازہ کھلا رہنے دو، کیوںکہ میں نے اس پر نور دیکھا ہے۔1 حضرت ایوب بن بشیر ؓ فرماتے ہیں: حضورﷺ نے اپنے مرض الوفات میں ارشاد فرمایا: مجھ پر پانی ڈالو۔ پھر آگے پچھلی جیسی حدیث ذکر کی اور مزید یہ بھی ہے کہ حضورﷺ نے اﷲ کی حمد و ثنا کے بعد سب سے پہلے شہدائے اُحُد کا ذکر فرمایا اور ان کے لیے اِستغفار کیا اور دعا کی، پھر فرمایا: اے جماعتِ مہاجرین! تمہاری تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور انصار اپنی اسی حالت پر ہیں ان کی تعداد نہیں بڑھ رہی ہے۔ اور یہ انصار تو میرے خاص تعلق والے ہیں جن کے پاس آکر مجھے ٹھکانا ملا ہے، لہٰذا تم ان کے کریم آدمی کا اکرام کرو اور ان کے برے سے درگزر کرو۔ پھر حضورﷺ نے فرمایا: اے لوگو! اﷲ کے بندوں میں سے ایک بندے کو اختیار دیا گیا۔ پھر پچھلی حدیث جیسا مضمون ذکر کیا اور اس روایت میں ہے کہ حضورﷺ کے اس فرمان کا مطلب لوگوں میں سے صرف ابو بکر ؓ ہی سمجھ سکے اور اسی وجہ سے وہ رونے لگے۔ 1 حضرت ابو سعید ؓ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ حضورﷺ نے لوگوں میں بیان فرمایا، آپ نے ارشاد فرمایا: اﷲ تعالیٰ نے ایک بندے کو اختیار دیا کہ یا تو وہ دنیا میں رہ لے یا اﷲ کے ہاں جو کچھ ہے اسے لے لے۔ چناںچہ اس بندے نے اﷲ کے ہاں جو کچھ ہے اس کو اختیار کر لیا۔ اس پر حضرت ابو بکرؓرو پڑے۔ ہم اس بات پر حیران ہوئے کہ حضورﷺ نے تو کسی بندے کے بارے میں خبر دی ہے اس پر یہ حضرت ابو بکرکیوں رو رہے ہیں؟ اس میں تو رونے کی کوئی بات نہیں، لیکن ہمیں بعد میں پتا چلا کہ جس بندے کوا ختیار دیا گیا ہے اس سے مراد تو خود حضورﷺ تھے (اور حضورﷺ کے اس فرمان کا مطلب یہ تھا کہ حضورﷺ یہ بتا رہے تھے کہ حضور ﷺ عن قریب اس دنیا سے تشریف لے جانے والے ہیں)۔ یہ بات حضرت ابو بکر ؓ ہم میں سب سے زیادہ سمجھنے والے تھے۔ پھر حضورﷺ نے فرمایا: