حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں: میں حضورﷺ کے مہاجر اور انصاری بڑے بڑے صحابہ ؓ کے ساتھ ہر وقت رہا کرتا تھا، اور میں ان سے حضورﷺ کے غزوات کے بارے میں اور ان غزوات کے متعلق اُترنے والے قرآن کے بارے میں خوب سوالات کرتا تھا۔ اور میں ان میں سے جس کے پاس جاتا وہ میرے آنے سے بہت خوش ہوتا، کیوںکہ میں حضور ﷺ کا رشتہ دار (چچا زاد بھائی) تھا۔ حضرت اُبی بن کعب ؓ مضبوط اور پختہ علم والوں میں سے تھے۔ میں نے ان سے ایک دن مدینہ میںنازل ہونے والی سورتوں کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا: مدینہ میں ستائیس سورتیں نازل ہوئیں اور باقی مکہ میں۔2 حضرت عِکرِمہکہتے ہیں: میں نے حضرت عبداﷲبن عمرو بن عاصؓ کو فرماتے ہوئے سنا کہ حضرت ابنِ عباسؓگزرے ہوئے علوم اور واقعات کو ہم سب سے زیادہ جاننے والے ہیں، اور جو نیا مسئلہ پیش آجائے اور اس کے بارے میں قرآن و حدیث میں کچھ نہ آیا ہو، اس کے متعلق وہ سب سے زیادہ دینی سمجھ رکھنے والے ہیں۔ حضرت عکرمہ کہتے ہیں: میں نے یہ بات حضرت ابنِ عباس کو بتائی تو انھوں نے فرمایا: حضرت عبداﷲبن عمروؓ کے پاس بہت علم ہے، کیوںکہ وہ حضورﷺسے حلال و حرام کے بارے میں خوب پوچھا کرتے تھے (یعنی حضرت ابنِ عباس ان کے فضائل کا اعتراف فرمارہے ہیں)۔1 حضرت عائشہ ؓ نے حج کی راتوں میں دیکھا کہ حضرت ابنِ عباسؓ کے اردگرد بہت سے حلقے ہیں اور ان سے مناسکِ حج کے بارے میں لوگ خوب پوچھ رہے ہیں، تو حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: اب جتنے صحابہ باقی رہ گئے ہیں یہ ان میں سے سب سے زیادہ مناسکِ حج کو جاننے والے ہیں۔2 حضرت یعقوب بن زیداپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ جب حضرت جابر بن عبد اﷲ ؓ کو حضرت ابنِ عباس ؓ کے انتقال کی خبر ملی تو انھوں نے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارا اور فرمایا: لوگوں میں سب سے زیادہ علم والے اور سب سے زیادہ بُردبار انسان کا انتقال ہوگیا ہے، اور ان کے انتقال سے اس اُمّت کا ایسا نقصان ہوا ہے جس کی تلافی کبھی نہیں ہوسکے گی۔3 حضرت ابو بکر بن محمد بن عمرو بن حزمکہتے ہیں: جب حضرت ابنِ عباسؓ کا انتقال ہوا تو حضرت رافع بن خَدیج ؓ نے فرمایا: آج اس شخصیت کا انتقال ہوگیا جس کے علم کے مشرق سے لے کر مغرب تک کے تمام لوگ محتاج تھے۔4 حضرت ابو کلثوم کہتے ہیں: حضرت ابنِ عباس ؓ دفن ہوگئے تو حضرت ابنِ حنفیّہ نے کہا: اس اُمّت کے عالمِ ربانی کا انتقال ہوگیا۔5 حضرت عمروبن دینار کہتے ہیں: حضرت ابنِ عمرؓ نو عمر فُقَہا میں شمار کیے جاتے تھے۔6 حضرت خالد بن مَعدان کہتے ہیں کہ اب ملکِ شام میں حضورﷺ کے صحابہ میں سے کوئی صحابی حضرت عُبادہ بن صامت اور حضرت شدّاد بن اَوس ؓ سے زیادہ قابلِ اعتماد، زیادہ دینی سمجھ رکھنے والا اور ان سے زیادہ پسند یدہ باقی نہیں رہا۔1 حضرت حنظلہ بن اَبی سفیان اپنے اساتذہ سے یہ نقل کرتے ہیں کہ حضورﷺ کے نو عمر صحابہ میں سے کوئی صحابی حضرت ابو سعید