حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کی طرف سے) عقل اور سمجھ بھی خوب ملی ہے، اور حضور ﷺ نے ان کے لیے یہ دعا فرمائی ہے کہ اﷲانھیں دین کی سمجھ عطافرمائے۔1 حضرت طاؤس کہتے ہیں کہ حضرت ابنِ عبا سؓ تمام لوگوں میں علم کے اعتبار سے ایسے اونچے تھے جیسے کھجور کے چھوٹے درختوں میں لمبا درخت ہوتا ہے۔2 حضرت ابو وائل کہتے ہیں کہ میںاور میراایک ساتھی حج پر گئے، حضرت ابنِ عباس ؓ حج کے امیر تھے۔ وہ سورۂ نور پڑھنے لگے اور ساتھ کے ساتھ اس کی تفسیر کرنے لگے جسے سن کر میرے ساتھی نے کہا: سبحان اﷲ! اس آدمی کے سر سے کیا کچھ نکل رہا ہے؟ اگر تُرک لوگ اسے سن لیں مسلمان ہوجائیں۔3 دوسری روایت میں یہ ہے کہ حضرت ابووائل کہتے ہیں: (تفسیر سن کر) میں نے کہا: ان جیسی باتیں نہ تو میں نے کسی آدمی سے سنی ہیں اور نہ کہیں دیکھی ہیں۔ اگر فارس اور روم والے یہ سن لیتے تو مسلمان ہوجاتے۔ حضرت ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت عمر بن خطّابؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انھوں نے مجھ سے ایک مسئلہ پوچھا جو انھیں یمن سے حضرت یعلیٰ بن اُمیّہ ؓ نے لکھا تھا۔ میں نے انھیں اس کا جواب دیا تو فرمایا: میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ تم نبوت کے گھرانے سے بولتے ہو۔4 حضرت عطاء کہتے ہیں: کچھ لوگ حضرت ابنِ عباسؓ کے پاس اشعار کے لیے آتے، کچھ لوگ نسب اور کچھ لوگ عرب کے واقعات معلوم کرنے آتے، وہ ہر طرح کے لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور جس طرح چاہتے خوب گفتگو کرتے۔5 حضرت عبید اﷲبن عبداﷲبن عتبہ کہتے ہیں: کئی عمدہ صفات کی وجہ سے حضرت ابنِ عباس ؓ تمام لوگوں پر فوقیت رکھتے تھے۔ وہ گذشتہ علوم کو خوب جانتے تھے، اور جب ان کے مشورے کی ضرورت ہوتی تو بہت سمجھ داری کا مشورہ دیتے، اور بُردباری اور جود وسخا ان میںکوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ میں نے کوئی آدمی ایسا نہیں دیکھا جو ان سے زیادہ حضورﷺ کی حدیثوں کو، اور حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمانؓ کے فیصلوں کو جاننے والا ہو، اور ان سے زیادہ سمجھ داری کی رائے والا ہو۔ اور اشعار کو، عربی لغت کو، قرآن کی تفسیر کو، حساب اور میراث کو، اور گذشتہ واقعات کو ان سے زیادہ جاننے والا ہو، اور ان سے زیادہ درست رائے والا ہو۔ کسی دن وہ اپنی مجلس میں بیٹھتے تو صرف دین کی سمجھ کے بارے میں بات کرتے، اور کسی دن صرف قرآن کی تفسیر کے بارے میں بات کرتے، اور کسی دن صرف حضورﷺ کے غزوات کے بارے میں بات کرتے، اور کسی دن اشعار کے بارے میں اور کسی دن عرب کی لڑائیوں کے بارے میں بات کرتے۔ اور میں نے یہی دیکھا کہ جو عالم بھی ان کی مجلس میںآیا وہ آخر کار ان (کی علمی عظمت) کے سامنے ضرور جھک گیااور جو بھی ان سے کچھ پوچھنے آیا اسے اپنے سوال کا جواب ضرور ملا۔ 1