حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطّابؓسے اﷲتعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں پوچھا: {یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْئَلُوْا عَنْ اَشْیَآئَ اِنْ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ}2 اے ایمان والو! ایسی (فضول) باتیں مت پوچھو کہ اگر تم سے ظاہر کردی جاویں تو تمہاری ناگواری کا سبب ہو۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: کچھ مہاجرین کو اپنے نسب میں کچھ شبہ تھا۔ ایک دن یہ لوگ آپس میں کہنے لگے: اﷲ کی قسم! ہمارا دل چاہتا ہے کہ ہمارے نسب کے بارے میں اللہ تعالیٰ کچھ قرآن نازل فرمادیں تو کیا ہی اچھا ہو۔ اس پر اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی جو تم نے ابھی پڑھی تھی۔ پھر حضرت عمرؓ نے مجھ سے فرمایا: تمہارے یہ ساتھی یعنی حضرت علی بن اَبی طالب ؓ اگر امیر بن گئے تو یہ زاہد تو ہوں گے، لیکن مجھے خود بینی کا ڈر ہے کہ کہیں اس میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ میں نے کہا: اے امیر المؤمنین! ہمارے ساتھی (کے فضائل اور درجے) کو تو آپ جانتے ہیں۔ اﷲ کی قسم! آپ کیا فرما رہے ہیں؟ (حضورﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد) ا ن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور جتنے دن وہ حضورﷺ کے ساتھ رہے کبھی حضورﷺ کو ناراض نہیں کیا۔حضرت عمرؓ نے فرمایا: حضرت فاطمہ ؓ کے ہوتے ہوئے حضرت علیؓنے ابو جہل کی بیٹی کو شادی کا پیغام دینا چاہا تھا جس پر حضور ﷺ کو گرانی ہوئی تھی۔ میں نے کہا: اﷲ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کی نافرمانی کے قصے میں فرمایا ہے: {وَلَمْ نَجِدْ لَہُ عَزْمًا}1 ہم نے (اس حکم کے اہتمام میں) ان میں پختگی (اور ثابت قدمی) نہ پائی۔ ایسے ہی ہمارے ساتھی نے حضورﷺ کو ناراض کرنے میں پختگی نہ دکھائی (بلکہ جوںہی پتا چلا کہ یہ کام حضورﷺ کو پسند نہیں ہے انھوں نے فوراً اس ارادہ کو چھوڑ دیا)۔ اور یہ تو دل کے وہ خیالات ہیں جن کے آنے کو کوئی نہیں روک سکتا،اور اﷲکے دین کی سمجھ رکھنے والے فقیہ اور اﷲ کے اَحکام کے جاننے والے عالم سے بھی کبھی لغزش ہوجاتی ہے، لیکن جب اسے اس پر متنبہ کیا جائے تو فوراً اسے چھوڑ کر اﷲ کی طرف رجوع کرلیتا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: اے ابنِ عباس! جو یہ چاہتا ہے کہ تمہارے (علوم کے) سمندر وں میں گھس کر تمہارے ساتھ غوطہ لگائے اور گہرائی تک جاپہنچے، وہ ایسا کام کرنا چاہتا ہے جو اس کے بس میں نہیں(یعنی تم نے اپنے دلائل سے مجھے لاجواب کردیا ہے)۔2 حضرت سعد بن اَبی وقاص ؓ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداﷲ بن عمرؓ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اتنے میں سامنے سے مقصورہ والے حضرت خُباب ظاہر ہوئے اور کہنے لگے: اے عبداﷲ بن عمر! کیا آپ نے وہ حدیث سنی ہے جو حضرت ابو ہریرہ بیان کررہے ہیں؟ وہ کہہ رہے ہیں کہ میں نے حضورﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو گھر سے ہی جنازہ کے ساتھ چلے اور اس کی نمازِ جنازہ پڑھے اور پھر دفن تک اس کے پیچھے رہے اس کو دو قیراط اجر ملے گا۔ ایک قیراط اُحُدپہاڑ کے برابر ہوتا ہے۔ اور جو نمازِ جنازہ پڑھ کر واپس آجائے اس کو اُحُدپہاڑ کے برابر اجر ملے گا، یعنی ایک قیراط اجر ملے گا۔ حضرت ابنِ عمر نے حضرت خُباب کو حضرت عائشہؓ کے پاس بھیج دیا کہ