حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہیں۔ حضرت عمرؓنے فرمایا: یہ تو میں بھی جانتا ہوں کہ اﷲ زیادہ جانتے ہیں، لیکن میں اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ اگر آپ لوگوں میں سے کسی کو کچھ معلوم ہے یا اس نے اس بارے میں کچھ سن رکھا ہے تو وہ بتادے۔ اور لوگ تو خاموش رہے لیکن میں نے دھیمی آواز سے کچھ کہا۔ اس پر حضرت عمرؓنے مجھ سے فرمایا:کہو، اے میرے بھتیجے! کہو، اپنے آپ کو اتنا کم درجہ کا نہ سمجھو۔ میں نے کہا: اس مثال سے مراد عمل ہے۔ انھوں نے فرمایا: عمل مراد لینے کی کیا دلیل ہے؟ میں نے کہا: (دلیل تو کوئی نہیں ہے لیکن) میرے دل میں یہ بات آئی ہے جو میں نے کہہ دی ہے۔ اس پر حضرت عمرؓ مجھے چھوڑ کر خود تفسیر کرنے لگے اور فرمایا: اے میرے بھتیجے! تم نے ٹھیک کہا، واقعی اس سے عمل ہی مراد ہے۔ ابنِ آدم جب بوڑھا ہوجاتا ہے اور اس کے اہل وعیال زیادہ ہوجاتے ہیں تو اسے اپنے باغ کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے ہی قیامت کے دن اسے عمل کی سب سے زیادہ ضرورت ہوگی۔ اے میرے بھتیجے! تم نے بالکل ٹھیک کہا۔1 حضرت ابنِ عباس ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓمجھے غزوۂ بدر میں شریک ہونے والے بڑے بوڑھوں کے ساتھ اپنی مجلس میں شریک فرمایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ان سے حضرت عبدالرحمن بن عوفؓنے کہا: آپ اس نوجوان کو ہمارے ساتھ شریک کرتے ہیں حالاںکہ اس جتنے تو ہمارے بیٹے ہیں؟ حضرت عمرؓنے فرمایا: یہ ان لوگوں میں سے ہے جن کو تم جانتے ہو۔ ایک دن حضرت عمرؓ نے انھیں بھی بلایا اور مجھے بھی بلایا۔ میں سمجھ گیا کہ مجھے صرف اس لیے بلایا ہے تاکہ وہ لوگ میری (علمی) حیثیت دیکھ لیں۔ اور فرمایا: آپ لوگ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ اور پھر {اِذَا جَآئَ نَصْرُ اﷲِ وَالْفَتْحُ} سے لے کر آخر تک ساری سورت پڑھی۔ اے محمد! جب خدا کی مدد اور (مکہ کی) فتح(مع اپنے آثار کے) آپہنچے(یعنی واقع ہوجائے)، اور (آثار جو اس پر متفرع ہونے والے ہیں یہ ہیں کہ) آپ لوگوں کو اﷲکے دین (یعنی اسلام) میں جوق درجوق داخل ہوتا ہوا دیکھ لیں، تو اپنے رب کی تسبیح و تحمید کیجیے اور اس سے اِستغفار کی درخواست کیجیے، وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔ ان میں سے کسی نے کہا: اﷲ نے ہمیں اس بات کا حکم دیا ہے کہ جب اﷲ کی مدد آجائے اور ہمیں فتح نصیب ہوجائے تو ہم اس کی تعریف کریں اور اس سے مغفرت طلب کریں۔ اور کسی نے کہا: ہمیں معلوم نہیں۔ بعضوں نے کچھ نہیں کہا بلکہ خاموش رہے۔ پھر حضرت عمرؓنے مجھ سے فرمایا: اے ابنِ عباس! کیا تم بھی ایسے ہی کہتے ہو؟ میں نے کہا: نہیں۔ انھوں نے فرمایا: پھر تم کیا کہتے ہو؟ میں نے کہا: اس میں حضورﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کی طرف اشارہ ہے۔ اﷲتعالیٰ نے حضورﷺ کو بتایا ہے کہ جب اﷲ کی مدد آجائے اور مکہ فتح ہوجائے اور تم لوگوں کو دیکھ لو تو یہ آپ کے دنیا سے جانے کے قریب آنے کی نشانی ہے، لہٰذا آپ اپنے ربّ کی تسبیح و تحمید کیجیے اور اس سے مغفرت طلب کیجیے، وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔ پھر حضرت عمرؓ نے فرمایا: مجھے بھی اس سورت کے بارے میں اتنا ہی معلوم ہے جتنا تمھیں معلوم ہے۔1