حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حدیث بیان کرتا ہے کبھی اسے بھول جاتا ہے کبھی یاد آجاتی ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ حضرت علیؓنے فرمایا: میں نے حضورﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جیسے چاند کا بادل ہوتا ہے ایسے دل کے لیے بھی بادل ہے۔ چاند خوب چمک رہاہوتاہے بادل اس کے سامنے آجاتا ہے تو اندھیرا ہوجاتا ہے اور جب بادل ہٹ جاتا ہے چاند پھر چمکنے لگتاہے۔ ایسے ہی آدمی ایک حدیث بیان کرتا ہے، وہ بادل اس پر چھا جاتا ہے تو وہ حدیث بھول جاتا ہے، اورجب اس سے بادل ہٹ جاتا ہے تو اسے وہ حدیث یاد آجاتی ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: دو باتوں کا جواب مل گیا۔تیسری بات یہ ہے کہ آدمی خواب دیکھتا ہے تو کوئی خواب سچا ہوتا ہے کوئی جھوٹا، اس کی کیا وجہ ہے؟ حضرت علی ؓ نے فرمایا: جی ہاں، اس کا جواب بھی مجھے معلوم ہے۔ میں نے حضورﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو بندہ یا بندی گہری نیند سوجاتا ہے تو اس کی روح کو عرش تک چڑھایا جاتا ہے۔ جو روح عرش پر پہنچ کر جاگتی ہے اس کا خواب تو سچا ہوتاہے اور جو اس سے پہلے جاگ جاتی ہے اس کا خواب جھوٹا ہوتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: میں ان تین باتوں کی تلاش میں ایک عرصہ سے لگا ہوا تھا، اﷲ کا شکر ہے کہ میں نے مرنے سے پہلے ان کو پالیا۔1 حضرت ابراہیم تیمی کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت عمر بن خطاب ؓ تنہائی میں بیٹھے ہوئے تھے اور اپنے دل میں کچھ سوچ رہے تھے۔ پھر آدمی بھیج کر حضرت ابنِ عباس ؓ کو بلایا۔ جب وہ آگئے تو ان سے فرمایا: اس اُمّت میں کیسے اختلاف ہوسکتا ہے جب کہ ان کی کتاب ایک ہے اور ان کا نبی ایک ہے اور ان کا قبلہ ایک ہے؟ حضرت ابنِ عباس ؓ نے کہا:اے امیرالمؤمنین! ہم پر قرآن نازل ہوا، ہم نے اسے پڑھااور ہمیں معلوم ہے کہ قرآن کی یہ آیت کس کے بارے میں نازل ہوئی ہے، لیکن ہمارے بعد کے لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن انھیں یہ نہیں معلوم ہوگا کہ یہ آیت کس بارے میں نازل ہوئی ہے، اس طرح ہر جماعت کی اس بارے میں الگ الگ رائے ہوگی، جب ہر جماعت کی الگ الگ رائے ہوگی تو ان میں اختلاف ہوجائے گا اور جب ان میں آپس میں اختلاف ہوجائے گا تو پھر آپس میں لڑ پڑیں گے۔ یہ سن کر حضرت عمرؓان پر برسے اور انھیں خوب ڈانٹا۔ حضرت ابنِ عباس ؓ واپس چلے گئے، لیکن حضرت ابنِ عباس نے جو بات کہی تھی وہ بعد میں حضرت عمرؓکو سمجھ آگئی تو انھیں بلایا اور ان سے فرمایا: وہ اپنی بات ذرا دوبارہ کہنا۔1 حضرت ابنِ عباسؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطابؓ نے فرمایا: آج رات میں نے ایک آیت پڑھی جس کی وجہ سے مجھے ساری رات نیند نہیں آئی۔ وہ آیت یہ ہے: {اَیَوَدُّ اَحَدُکُمْ اَنْ تَکُوْنَ لَہُ جَنَّۃٌ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّاَعْنَابٍ} الآیۃ2 بھلا تم میں سے کسی کو یہ بات پسند ہے کہ اس کا ایک باغ ہو کھجور وںاور انگوروں کا، اس کے (درختوں کے) نیچے نہریں چلتی ہوں، اس شخص کے یہاں اس باغ میں اور بھی ہر قسم کے (مناسب) میوے ہوں، اور اس شخص کا بڑھاپا آگیا ہو اور اس کے اہل وعیال بھی ہوں جن میں(کمانے کی) قوت نہیں۔ سو اس باغ پر ایک بگولا آوے جس میںآگ (کامادہ) ہو پھر وہ باغ جل جاوے۔ میں ساری رات یہ سوچتا رہا کہ اﷲتعالیٰ اس آیت میں کیا کہنا چاہتے ہیں؟ اس سے مراد کیا ہے؟ ایک آدمی نے کہا: اﷲزیادہ جانتے