حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تعریف کی۔ پھر آپ نے فرمایا: کیا بات ہے کچھ لوگ ایسے ہیں جو نہ اپنے پڑوسیوں میں دین کی سمجھ پیدا کرتے ہیں اور نہ ان کو سکھاتے ہیں اور نہ انھیں سمجھ دار بناتے ہیں اور نہ ان کو بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور نہ انھیں برائی سے روکتے ہیں۔ اور کیا بات ہے کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنے پڑوسیوں سے دین کی سمجھ حاصل نہیں کرتے اور ان سے سیکھتے نہیں اور سمجھ و عقل کی باتیں حاصل نہیں کرتے؟ اﷲ کی قسم! یا تو یہ لوگ اپنے پڑوسیوں کو سکھانے لگ جائیں اور انھیںسمجھ دار بنانے لگ جائیں اور ان میں دین کی سمجھ پیدا کرنے لگ جائیں اور انھیں بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے لگ جائیں، اور دوسرے لوگ اپنے پڑوسیوں سے سیکھنے لگ جائیں اور ان سے سمجھ وعقل کی باتیں حاصل کرنے لگ جائیں اور دین کی سمجھ حاصل کرنے لگ جائیں، ورنہ میں انھیں اس دنیا میں جلد سزا دوںگا۔ پھر منبر سے نیچے تشریف لائے اورا پنے گھر تشریف لے گئے۔لوگ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ کیا خیال ہے حضور ﷺ نے کن لوگوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے؟تو کچھ لوگوں نے کہا: ہمارے خیال میں تو قبیلہ اَشعر کے لوگوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے، کیوںکہ وہ خود دین کی سمجھ رکھتے ہیں اور ان کے کچھ پڑوسی ہیں جو چشموں پر زندگی گزارنے والے، دیہاتی اور اُجڈ لوگ ہیں۔ جب یہ خبر ان اَشعری لوگوں تک پہنچی تو انھوں نے حضورﷺ کی خدمت میں آکر عرض کیا: یا رسول اﷲ! آپ نے بہت سے لوگوں کی تو تعریف فرمائی، لیکن ہمارے بارے میں آپ نے کچھ نہیں فرمایا ہے، تو ہماری کیا خامی ہے؟ حضورﷺ نے فرمایا: لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کو سکھائیں، ان میں دین کی سمجھ پیدا کریں اور انھیں سمجھ دار بنائیں اور انھیں نیکی کا حکم کریں اور انھیں برائی سے روکیں۔ اور ایسے ہی دوسرے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے پڑوسیوں سے سیکھیں اور ان سے سمجھ و عقل کی باتیں حاصل کریں اور دین کی سمجھ حاصل کریں، نہیں تو میں ان سب کو دنیا ہی میں جلد سزادوں گا۔ ان اَشعری لوگوں نے عرض کیا: کیا دوسروں کی غلطی پر ہم پکڑے جائیں گے؟ حضورﷺ نے اپنی وہی بات دوبارہ ارشاد فرمائی تو انھوں نے پھر عرض کیا: کیا ہم دوسروں کی غلطی پر پکڑیں جائیں گے؟ حضور ﷺ پھر وہی ارشاد فرمایا تو انھوں نے عرض کیا: ہمیں ایک سال کی مہلت دے دیں۔ چناںچہ حضورﷺ نے انھیں ایک سال کی مہلت دی تاکہ وہ ان پڑوسیوں کو سکھائیں، ان میں دین کی سمجھ پیدا کریں اور انھیں سمجھ دار بنائیں۔ پھر حضورﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: {لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْم بَنِیْٓ اِسْرٰٓ ئِ یْلَ عَلی لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَج ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَآیت کا نشان کَانُوْا لَا یَتَنَاھَوْنَ عَنْ مُّنْکَرٍ فَعَلُوْہُط لَبِئْسَ مَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَآیت کا نشان}1 بنی اسرائیل میں جو لوگ کافر تھے ان پر لعنت کی گئی تھی داود اور عیسیٰ بن مریم ( ؑ )کی زبان سے۔ یہ لعنت اس سبب سے ہوئی کہ انھوں نے حکم کی مخالفت کی اور حد سے نکل گئے، جو برا کام انھوں نے کررکھا تھا اس سے باز نہ آتے تھے، واقعی ان کا فعل بے شک برا تھا۔2