حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اس کے حواری اور خاص صحابی ضرور ہوتے جو اس کی ہر سنت کو مضبوطی سے پکڑتے اور ٹھیک ٹھیک اس کی پیروی کرتے اور اس کے دین کو بعینہٖ محفوظ رکھتے، لیکن بعد میںایسے نالائق لوگ پیدا ہوجاتے جو اُن کاموں کا دعویٰ کرتے جو انھوں نے کیے نہیں ہوتے تھے اور جن کاموں کا حکم نہیں دیا گیا تھا اُن کاموں کو کرتے تھے (میری اُمت میں بھی ایسے لوگ آیندہ ہوں گے)۔ جو اِن لوگوں کے خلاف اپنے ہاتھ سے جہاد کرے وہ بھی مؤمن ہے، اور جو اپنی زبان سے جہاد کرے وہ بھی مؤمن ہے، اور جو اپنے دل سے جہاد کرے وہ بھی مؤمن ہے، اس کے بعد رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہے۔ 1 حضرت عبداﷲ بن عمروؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا: اصل علم تین چیزیں ہیں: مُحکَم آیت (یعنی قرآنِ مجید)، قائم و دائم سنت، یعنی حضورﷺ کی وہ حدیث جو قابلِ اعتماد سند سے ثابت ہو اور قرآن و حدیث کے برابر درجہ رکھنے والے فرائض، یعنی اِجماع اور قیاس۔ ان کے علاوہ جو کچھ ہے وہ زائد علم ہے(اسے حاصل کرنا ضروری نہیں ہے)۔2 حضرت عمرو بن عَوفؓ فرماتے ہیں: حضورﷺ نے فرمایا: میں تم میں ایسی دو چیزیں چھوڑ کر جارہاہوں کہ جب تک تم ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے کبھی گمراہ نہیں ہوگے: ایک اﷲ کی کتاب اور دوسری اس کے نبی ﷺ کی سنت۔3 حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ ایک دن مسجد میں تشریف لائے تو دیکھا کہ بہت سارے لوگ ایک آدمی پر جمع ہیں۔ حضورﷺ نے پوچھا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ ایک علّامہ ہے۔ حضورﷺ نے پوچھا: اس کے علّامہ ہونے کا کیا مطلب؟لوگوں نے کہا:یہ عربوں کے نسب، عربی زبان، اَشعار اور عربوں کا جن چیزوں میں اختلاف ہے اُن سب کو تمام لوگوں سے زیادہ جاننے والا ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا: یہ ایسا علم ہے جس کے جاننے میں کوئی فائدہ نہیں اور اس کے معلوم نہ ہونے میں کوئی نقصان نہیں۔4 حضرت ابنِ عمر ؓ فرماتے ہیں کہ علم تین چیزیں ہیں: حق بولنے والی کتاب یعنی قرآن مجید، وہ سنت جو قیامت تک چلے گی، اور جو بات نہ آتی ہو اس کے بارے میں یہ کہہ دینا کہ میں اسے نہیں جانتا۔1 حضرت ابنِ عباس ؓفرماتے ہیں: اصل علم اﷲ کی کتاب اور اس کے رسول (ﷺ) کی سنت ہے۔ ان دونوں کو چھوڑ کر جوبھی اپنی رائے سے کچھ کہے گا اس کا پتا نہیں کہ وہ اسے اپنی نیکیوں میں پائے گا یا اپنی برائیوں میں۔2 حضرت مجاہد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم حضرت ابنِ عباس ؓکے شاگرد حضرت عطاء، حضرت طاؤس اور حضرت عکرمہ بیٹھے ہوئے تھے، اور حضرت ابنِ عباس ؓ کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہے تھے کہ اتنے میں ایک آدمی آیا اور اس نے کہا: کیا یہاں کوئی مفتی ہے؟ میں نے کہا: پوچھو کیا پوچھتے ہو؟اس نے کہا: میں جب بھی پیشاب کرتا ہوں تو اس کے بعد منی نکل آتی ہے۔ ہم نے کہا: وہی منی جس سے بچہ بنتا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ ہم نے کہا:اس سے تمھیں غسل کرنا پڑے گا۔ وہ إِنَّا لِلّٰہ پڑھتا ہو ا پشت پھیر کر واپس چلاگیا۔