حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اپنی تعریف کیا کرتے تھے۔2 حضرت ابو الدرداء ؓفرماتے ہیں: علم کے اٹھنے سے پہلے اسے حاصل کرلو اور علم کے اٹھنے کی صورت یہ ہوگی کہ عُلما دنیا سے چلے جائیں گے۔ اور علم سکھانے والے اور سیکھنے والے دونوں اجر میں برابر ہیں۔ انسان کہلانے کے مستحق دو ہی آدمی ہیں: علم سکھانے والا عالم یا علم سیکھنے والا۔ ان دو کے علاوہ باقی انسانوں میں کوئی خیر نہیں۔3 حضرت ابوالدردا ء ؓ فرماتے ہیں: جو بھی صبح سویرے مسجد کو کوئی خیر کی بات سیکھنے یا سکھانے جاتا ہے، اس کے لیے اس مجاہد کا اجر لکھا جاتا ہے جو مالِ غنیمت لے کر واپس آتا ہے۔1 حضرت ابو الدردا ء ؓ فرماتے ہیں کہ جو آدمی یہ سمجھے کہ صبح اور شام علم کے لیے جانا جہاد نہیں ہے وہ کم عقل ہے، وہ کم عقل اور ناقص رائے والا ہے۔2 حضرت ابوالدردا ء ؓ فرماتے ہیں کہ علم سیکھنے سے ہی حاصل ہوتا ہے۔3 حضرت ابو ذر اور حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ آدمی کا علم کا ایک باب سیکھ لینا ہمیں اس کے ہزار رکعت نفل پڑھنے سے زیادہ محبوب ہے۔ اور حضورﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: جو طالبِ علم طالبِ علمی کی حالت میں مرے گا وہ شہید ہوگا۔4 ایک روایت میں ان دونوں حضرات کا یہ ارشاد نقل ہے کہ علم کا ایک باب سکھانا ہمیں سو رکعت نفل سے زیادہ محبوب ہے چاہے اس پر عمل ہورہا ہو یا نہ ہورہا ہو۔ حضرت علی اَزْدی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابنِ عباس ؓسے جہاد کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا: کیا میں تمھیں ایسا عمل نہ بتادوں جو تمہارے لیے جہاد سے بہتر ہے؟ تم کسی مسجد میں جا کر قرآن، فقہ یا سنت سکھاؤ۔5 حضرت علی اَزْدی کہتے ہیں: میں نے حضرت ابنِ عباس ؓ سے جہاد کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا: کیامیں تمھیں وہ عمل نہ بتادوں جو تمہارے لیے جہاد سے بہتر ہے؟ تم ایک مسجد بناؤ اور اس میں قرآن، نبی کریم ﷺ کی سنتیں اور دین کے فقہی مسائل سکھاؤ۔6 حضرت ابنِ عباس ؓفرماتے ہیں: لوگوں کو خیر سکھانے والے کے لیے ہر چیز دعائے مغفرت کرتی ہے، حتیٰ کہ سمندر میں مچھلیاں بھی اس کے لیے دعائے مغفرت کرتی ہیں۔7 حضرت زِرّ بن حُبَیشکہتے ہیں: میں حضرت صَفوان بن عَسَّال مُرادی ؓکی خدمت میں صبح صبح گیا تو انھوں نے پوچھا: اے زِرّ! تم صبح صبح کس لیے آئے ہو؟ میں نے کہا: علم حاصل کرنے آیا ہوں۔ فرمایا: یا تو علم سکھانے والے عالم بنو یا سیکھنے والے بنو، ان دو کے علاوہ اور کچھ نہ بنو۔1