حیاۃ الصحابہ اردو جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ جب حضورﷺ کے زمانے میں نماز کا وقت آتا تو ایک آدمی راستے میں تیز تیز چلتا ہوا جاتا اور اعلان کرتا: الصَّلَاۃَ، الصَّلَاۃَ (نماز، نماز)۔ یہ کام لوگوں کو مشکل لگا تو انھوں نے عرض کیا: اگر ہم ایک گھنٹہ بنالیں۔ آگے باقی حدیث ذکر کی۔3 حضرت نافع بن جُبیر، حضرت عروہ، حضرت زید بن اَسلم اور حضرت سعید بن مسیب ؓ کہتے ہیں کہ حضورﷺ کے زمانے میں اذان کا حکم ملنے سے پہلے حضورﷺ کا ایک اعلان چی یہ اعلان کرتا: اَلصَّلَاۃُ جَامِعَۃٌ (نماز کا وقت ہوگیا ہے سب جمع ہوجائیں)۔ جب قبلہ (بیتُ المقدس سے) کعبہ کی طرف تبدیل ہوا تو اذان کا حکم آگیا۔ ا س کی صورت یہ ہوئی کہ حضورﷺ کو نماز کے وقت کی اطلاع دینے کا بہت فکر تھا۔ نماز کے لیے لوگوں کو جمع کرنے کے لیے صحابہؓ نے بہت سی چیزوں کا ذکر کیا۔ کسی نے بِگل کا نام لیا اور کسی نے گھنٹے کا۔ آگے باقی حدیث ذکر کی اور اس کے آخر میں یہ ہے کہ پھر اذان کا حکم مل گیا اور الصَّلَاۃُ جَامِعَۃٌ کا اعلان اس مقصد کے لیے رہ گیا کہ لوگوں کو جمع کرکے انھیں کسی خاص واقعہ، کسی فتح وغیرہ کی اطلاع کردی جاتی یا انھیں کوئی نیا حکم بتادیا جاتا، اور اَلصَّلَاۃُ جَامِعَۃٌ کے ذریعہ اس مقصد کے لیے جمع کرنے کے لیے اعلان کیا جاتا چاہے وہ وقت نماز کانہ ہوتا۔1 حضرت سعد قَرَظ ؓ فرماتے ہیں کہ جس وقت بھی حضورﷺ قُباتشریف لاتے تو حضرت بلال ؓ اذان دیتے تاکہ لوگوں کو پتا چل جائے کہ حضورﷺ تشریف لے آئے ہیں اور لوگ حضور ﷺ کے پاس جمع ہوجائیں۔ چناںچہ ایک دن حضور ﷺ تشریف لائے،حضرت بلال آپ کے ساتھ نہیں تھے تو حبشی لوگ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ میں نے ایک درخت پر چڑھ کر اذان دی۔ حضورﷺ نے مجھ سے پوچھا: اے سعد! تم نے ایساکیوں کیا؟ میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! میں نے دیکھا کہ آپ کے ساتھ تھوڑے سے لوگ ہیں اور حضرت بلال ساتھ نہیں ہیں۔ اور میں نے دیکھا کہ یہ حبشی لوگ ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں اور پھر آپ کو بھی دیکھ رہے ہیں، اس لیے مجھے ان کی طرف سے آپ پر حملہ کا خطرہ ہوا، اس لیے میںنے اذان دی۔ حضورﷺ نے فرمایا: تم نے ٹھیک کیا۔ جب تم میرے ساتھ بلال کو نہ دیکھا کرو تو اذان دے دیا کرو۔ چناںچہ حضرت سعد ؓ نے حضور ﷺ کی زندگی میں تین مرتبہ اذان دی۔2 حضرت ابو الوقاصؓ فرماتے ہیں: قیامت کے دن اﷲ کے ہاں اذان دینے والوں کا (اجر و ثواب میں سے) حصّہ جہاد کرنے والوں کے حصّے جیسا ہوگا۔ اور مؤذن اذان اور اِقامت کے درمیان اس شہید کی طرح ہوتا ہے جو اﷲکے راستے میں اپنے خون میں لت پت ہو۔ حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ فرماتے ہیں:اگرمیں مؤذن ہوتا تو حج، عمرہ اور جہاد نہ کرنے کی کوئی پروا نہ کرتا۔ حضرت عمربن خطاب ؓفرماتے ہیں کہ اگر میں مؤذن ہوتا تو میرا (دینی) کام پورا ہوجاتا، اور میں رات کی عبادت کے لیے نہ اٹھنے کی اور دن کو روزے نہ رکھنے کی پروا نہ کرتا۔ میں نے حضورﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اے اﷲ! اذان دینے والوں کی مغفرت