احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
مالی بے اعتدالیاں تقدس مآب خلیفہ ربوہ ایک پراسرار شخصیت ہے جس کے چلن کی آلودگی کے بارے میں اس کے اپنے مریدوں کی حلفیہ مؤکد بعذاب شہادتیں شائع ہو چکی ہیں۔ ان کی مالی بے اعتدالیوں کے متعلق چند نمونہ جات پیش خدمت ہیں کہ خدمت اسلام کا روپیہ کس مقام پر خرچ کیا جاتا ہے۔ پھر خصوصیت سے زکوٰۃ کے روپیہ سے ان عورتوں اور لڑکیوں کی مالی امداد کرتے ہیں جن سے بدکاری کرتے اور کرواتے ہیں۔ یہ پیش کش احمدیہ حقیقت پسند پارٹی مرکزیہ لاہور کی ہے۔ ان کی زبانی سنئے۔ ایک دفعہ ۱۹۲۴ء میں مغرب کو فتح کرنے دوسری دفعہ ۱۹۵۵ء میں اپنے فالج اور بعض دوسری پوشیدہ امراض کا علاج کروانے، ہر دفعہ اپنے ساتھ ہزاروں ہزار روپیہ کا سامان لائے اور کسٹم سے بچنے کے لئے بیسیوں حیلے کئے۔ اس سامان میں یورپ کے نوادرات، لندن سے نئے نئے ڈیزائن کے کپڑے، سوئٹزرلینڈ کے کلاک اور رسٹ واچیں، جرمنی کی استریاں اور سلائی کی مشینیں، ہالینڈ سے لیدر بیگ اور دیگر مختلف انواع کے چمڑے کے بکس، دمشق سے سونے کے زیورات اور مختلف جگہوں سے مختلف سامان بلکہ موٹریں تک بھی شامل ہیں۔ یہ اس شخص کا حال ہے جس کی متاہل زندگی کا آغاز ۶۰روپے ماہوار کے وظیفہ سے ہوا۔ زکوٰۃ کا بے محل استعمال یہ تو معلوم نہیں کہ خلیفہ صاحب نے خود بھی کبھی زکوٰۃ دی ہے یا نہیں۔ لیکن ایک چیز پر انہیں بڑا اصرار ہے۔ وہ یہ کہ زکوٰۃ کو تمام روپیہ براہ راست ان کی تحویل میں رہے اور وہ اسے جہاں پسند فرماویں اپنی صوابدید کے مطابق خرچ کیا کریں اور کوئی شخص حضور سے اس کا حساب نہ پوچھے۔ یہ خاص حق خلافت ہے۔ ذیل کا اعلان پڑھئے۔ ’’خلیفہ مسیح کے ارشاد کے ماتحت یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ آئندہ زکوٰۃ کی رقوم محاسب صدر انجمن کے نام نہ بھیجی جایا کریں۔ زکوٰۃ براہ راست خلیفہ وقت کے حضور آنی چاہئے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۲۵؍مئی ۱۹۲۲ء) یہ صریحاً خلاف شریعت اور خلاف قانون کا ہوا ہے۔ قطعاً خلیفہ صاحب کو یہ حق حاصل نہیں تھا کہ وہ محاسب سے بالا بالا سلسلہ کی بعض رقوم کو وصول کریں۔ اس کے لئے قطعاً کوئی وجہ جواز نہیں۔ سلسلہ کے ایک ایک روپیہ کا حساب ہونا ضروری ہے۔ یہ بددیانتی کی انتہاء ہے کہ ایک شخص اعلان کر دیتا ہے کہ قومی بیت المال سے بالا بالا بعض رقوم جن کے صرف کے متعلق وہ قوم کو