احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
کے قریب پہنچ کر نہایت آستگی سے السلام علیکم کہا جائے اور پھر یہ کہ اس کے جواب کا منتظر نہ رہا جائے۔ بلکہ فوراً دوسرے دروازے سے نکل کر باہر آجایا جائے۔ میں خود ملاقات کی غرض سے حاضر ہوا تھا۔ گر ان بندشوں نے کچھ آزردہ سا کر دیا اور میں واپس چلا گیا۔ چنانچہ پھر دو بجے بعد از دوپہر دوبارہ حاضر ہوا۔ شیخ عبدالحق جو ان کے ذاتی دفتر کا ایک رکن ہے اس سے اطلاع کے لئے کہا۔ حضرت اقدس نے خاکسار کو شرف باریابی بخشا۔ اس وقت گفتگو جو ایک مرید (میرے) اور ایک پیر (مرزامحمود) کے درمیان تھی۔ ہدیہ ناظرین کرتا ہوں۔ میں نے نہایت بے تکلیف سے کام لیتے ہوئے حضور سے دریافت کیا۔ آج کل تو آپ سے ملنا بھی کاردارد ہے۔ فرمایا! وہ کیسے؟ عرض کیا کہ چار چار جگہ جامہ تلاشی لی جاتی ہے۔ تب جاکر آپ تک رسائی ہوتی ہے۔ اس کے جواب میں میرے عضو مخصوص کو پکڑ کر ارشاد فرمایا کہ جامہ تلاشی کہاں ہوئی کہ جس مخصوص ہتھیار سے تمہیں کام لینا ہے وہ تو تم ان احتیاطی تدابیر کے باوجود اپنے ساتھ اندر لے آئے ہو۔ اس حاضر جوابی کا بھلا میرے پاس کیا جواب ہوسکتا تھا۔ میں خاموش ہوگیا۔ …… ایک بات جو میرے لئے معمہ بن گئی وہ یہ تھی کہ سنا تو یہ گیا تھا کہ چارپائی سے ہل نہیں سکتے۔ حتیٰ کہ سلام کا جواب بھی نہیں دے سکتے تھے۔ مگر وہ میرے سامنے اس طرح کھڑے تھے۔ جیسے انہیں قطعی کوئی تکلیف نہیں تھی۔ میں میاں صاحب کی خدمت میں التماس کروں گا کہ اگر وہ اس بات کو جھٹلانے کی ہمت رکھتے ہیں تو حلف مؤکد بعذاب اٹھائیں اور میں بھی اٹھاتا ہوں۔ ایم یوسف ناز! ربوہ کا نظام حکومت اب میں خلیفہ صاحب کی تقاریر اور خطابات کے اقتباسات کی روشنی میں خلافتی حکومت کا تفصیل خاکہ بیان کرتا ہوں۔ حاکم اعلیٰ ریاست میں حکومت اس نیابتی فرد کا نام ہے جس کو لوگ اپنے مشترکہ حقوق کی نگرانی سپرد کرتے ہیں۔ (الفضل مورخہ ۱۵؍اکتوبر ۱۹۳۶ء) خلیفہ کا یہ مذہب ہے کہ کوئی آدمی بھی خواہ وہ حق پر ہو خلیفہ وقت پر سچا اعتراض بھی نہیں کر سکتا۔ اگر وہ اعتراض کرے تو وہ دوزخی اور ناری ہے۔ آپ فرماتے ہیں: ’’جس مقام پر ان کو کھڑا کیا جاتا ہے اس کی عزت کی وجہ سے ان پر اعتراض کرنے والے ٹھوکر سے بچ نہیں سکتے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۸؍جون ۱۹۲۶ء)