احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
سے گریز نہ کیا۔ اس وحشیانہ بربریت پر مستزاد یہ کہ جب آپ کی لاش گورداسپور سے قادیان لائی گئی تو پھر مہذب قادیانیوں کا سلوک دیدنی تھا۔ قبر کھودنے والے مزدوروں کو دھمکا کر قبر کھودنے سے روکا گیا۔ اینٹیں دینے سے منع کیاگیاا ور نعش کا بکس بنانے والے مستریوں کو حکماً روک دیا گیا۔کیا ایسے انسانیت سوز بائیکاٹ کی کوئی مثال دنیاپیش کر سکتی ہے۔ بالآخر احرار رضاکاروں نے مذہبی اختلافات کے باوجود تدفین کا فریضہ سرانجام دیا اور انسانیت قادیان کے اس شرمناک رویے پر سر پیٹتی رہ گئی۔ مٹادو یا مٹ جاؤ خلیفہ ربوہ کا آخری خطبہ جو جمعہ ۶؍اگست ۱۹۳۷ء کو دیاگیا تھا وہ اس قدر اشتعال انگیز تھا کہ ڈی۔سی گورداسپور نے حکماً روک دیا تھا جو آج تک شائع نہیں ہوا۔ اپنے مخالفین کے خلاف اپنے مریدوں کو کس طرح ابھارتے ہیں۔ ان کے مزید اقتباس ملاحظہ ہوں۔ ’’تم میں سے بعض تقریر کے لئے کھڑے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم مر جائیں گے مگر سلسلہ کی ہتک برداشت نہیں کریں گے۔ مگرجب کوئی ان پر ہاتھ اٹھاتا ہے تو ادھر ادھر دیکھنے لگتے ہیں اور کہتے ہیں۔ بھائیو! کچھ روپے ہیں کہ جن سے مقدمہ کردیا جائے۔ کوئی وکیل ہے جو وکالت کرے۔ بھلا ایسے… نے بھی کسی قوم کو فائدہ پہنچایا ہے۔ بہادر وہ ہے جو اگر مارنے کا فیصلہ کرتا ہے تو مار کر پیچھے ہٹتا ہے اور پکڑا جاتا ہے تو دلیری سے سچ بولتا ہے۔ شریفانہ اور عقلمندانہ طریق دو ہی ہوتے ہیں۔‘‘ (الفضل مورخہ ۵؍جون ۱۹۳۷ء) دشمن کو سزا دینی چاہئے اگر تم میں رائی کے دانہ کے برابر بھی حیا ہے اور تمہارا سچ مچ یہی عقیدہ ہے کہ دشمن کو سزا دینی چاہئے تو پھر یا تم دنیا سے مٹ جاؤ گے یا گالیاں دینے والوں کو مٹا دو۔ گر کوئی انسان سمجھتا ہے کہ اس میں مارنے کی طاقت ہے تو میں اسے کہوں گا کہ: ’’اے بے شرم تو آگے کیوں نہیں جاتا اور اس منہ کو کیوں نہیں توڑتا۔‘‘ (الفضل مورخہ ۵؍جون ۱۹۳۷ء) ’’جسمانی ذرائع دعاؤں کے ساتھ وہ تمام تدابیر اور تمام ذرائع کا خواہ وہ روحانی ہوں… استعمال کریں۔‘‘ (الفضل ۹؍جولائی ۱۹۳۷ء) زندہ جماعت اور قربانی اس پر بس نہیں… پھر یوں فرماتے ہیں: ’’تو احمدیوں کا خون اس کی (حکومت)