احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
اب اس بیان میں خلیفہ کے خطبہ کے بیان کی طرف اشارہ ہے جس میں اس نے اپنے دشمنوں اور مخرجین کے خاندانوں کے متعلق یہ کہا تھا کہ ان میں سے حیا اور پاکیزگی جاتی رہے گی اور وہ فحش کا اڈا بن جائیں گے۔ میری رائے میں فخرالدین کے اس پوسٹر کا مطلب صاف اور واضح ہے اور ایسا ہی قادیان میں اس کا مطلب سمجھا گیا۔ کیونکہ صرف دو دن بعد سات اگست کو ایک متعصب مذہبی مجنوں نے فخرالدین کو مہلک زخم لگایا۔ میاںمحمد امین خان نے جو درخواست کنندہ کا وکیل ہے۔ اس امر پر زور دیا ہے کہ شیخ عبدالرحمن مصری اس آخری پوسٹر کے ذمہ وار نہیں ہیں۔ واقعات یہ ہیں کہ انجمن ایک مختصر سی حیثیت رکھتی تھی جس کا صدر عبدالرحمن اور سیکرٹری فخرالدین تھے۔ اصل پوسٹر ہاتھ کا لکھا ہوا تھا۔ جواب دستیاب نہیں ہوسکتا۔ البتہ اس کی نقل ایک کانسٹیبل نے کی تھی۔ جس کا یہ بیان ہے کہ اس کے پیچھے فخرالدین سیکرٹری مجلس احمدیہ کے دستخط تھے۔ مگر اس امر کے برخلاف فخرالدین کے لڑکے نے اصل مسودہ پیش کیا ہے جو اس کے باپ نے اس کی موجودگی میں لکھا تھا اور جس کے نیچے صرف اس قدر دستخط ہیں۔ فخرالدین ملتانی، میں کانسٹیبل کے بیان کو قابل قبول سمجھتا ہوں۔ کیونکہ اسے جھوٹ کہنے کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی جو وجہ صفائی کے گواہ میں پائی جاتی ہے۔ یعنی یہ کہ اس کا مقصد اپنے لیڈرکو چھڑانا ہے۔ یہ امر کہ فخرالدین نے اصل مسودہ پر سیکرٹری کے الفاظ نہ لکھے تھے۔ ظاہر نہیں کرتا کہ صاف کردہ اور شائع کنندہ کاپی پر بھی یہ الفاظ نہیں لکھے گئے تھے۔میری رائے میں شیخ عبدالرحمن پر بھی اس پوسٹر کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ خصوصاً اس بیان کے سامنے جو انہوں نے عدالت میں دیا ہے۔ ان حالات میں مقامی حکام نے شیخ عبدالرحمن کے برخلاف جو کچھ کارروائی حفظ امن کی ضمانت کی کہ وہ مناسب تھی۔ ایک ہزار روپیہ کی ضمانت کچھ بھاری ضمانت نہیں ہے اور یہ ضمانت دی جا چکی ہے اور نصف سے زائد عرصہ گزر بھی چکا ہے۔ لہٰذا درخواست مسترد کی جاتی ہے۔ دستخط: ایف ڈبلیو سکیمپ جج مورخہ ۲۳؍ستمبر ۱۹۳۸ء (عدالت عالیہ ہائیکورٹ لاہور) بالمقابل حلف مؤکد بعذاب قسم کھا کر خلیفہ کی نیک چلنی کی تردید کریں جناب چوہدری غلام رسول صاحب ایم۔اے