احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
آسکتا۔ خطرہ میں ڈال دیا ہے اور یہ نقصان اور بھی اہمیت اختیارکر جاتا ہے۔ جب کہ یہ دیکھا جاوے کہ پندرہ سولہ نفوس پر مشتمل کنبہ کی پرورش اس کے ذمہ ہے۔ دو بچے کالج میں بھی تعلیم پا رہے ہیں۔ پس مال وعزت کی اتنی بڑی قربانی کسی معمولی بات کی وجہ سے نہیں ہوسکتی۔ اس کی تہ میں ضرور کوئی بڑی بات ہے۔ لوگوں کے اس استعجاب وحیرت کو دور کرنے کے لئے ایک نہایت ہی جھوٹا ومکروہ پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ گویا میں نے اپنی لڑکی حضرت صاحب کی خدمت میں بغرض شادی پیش کی تھی اور حضرت صاحب نے اس کو اپنے عقد میں لینے سے انکارکر دیا۔ اس پر میں حضرت صاحب سے ناراض ہوگیا اور اس ناراضگی کے غصہ میں اس قسم کی حرکت کا مرتکب ہوا ہوں۔ میں اس پروپیگنڈہ کو دیر سے سن رہا ہوں۔ لیکن خاموشی اور صبر کے ساتھ اس کی تکلیف برداشت کرتا چلا آرہا ہوں۔ لیکن اب جب کہ تمام قادیان میں اور باہر دونوں جگہ یہی وجہ ذہن نشین کرادینے کی کوشش کی جارہی ہے اور مجھے خیال پڑتا ہے کہ یہ سب کچھ اس لئے کیا جارہا ہے تاکہ لوگوں کو وجہ دریافت کرنے کی جو طبعی خواہش ہے وہ اس وجہ کے بیان کر دینے سے پوری ہو جائے اور وہ اس سے تسلی پاکر وہ امر جو اس علیحدگی کا حقیقی باعث ہے اسے دریافت کرنے سے رک جائیں۔میں بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ اس غلط بیانی کی اب اعلانیہ تردید کروں۔ قادیان میں تو ہر ایک کی زبان پر یہی وجہ جاری ہے کہ لیکن مجھے اطلاع ملی ہے کہ لاہور میں بھی مولوی غلام رسول راجیکی نے بیان کیا کہ شیخ صاحب نے خاندان نبوت میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ اس لئے شیخ صاحب نے علیحدگی اختیار کر لی۔ گو مجھے یقین نہیں کہ مولوی غلام رسول راجیکی جیسے عالم آدمی نے اتنی بے احتیاطی سے کام لیا ہو کہ ایسی بے بنیاد بات بغیر تحقیق کے کہہ دی ہو۔ لیکن بہرحال چونکہ اس کا چرچا عام ہے۔ اس لئے میں اس کے متعلق اتنا عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ کیا دوستوں کا یہ فرض نہ تھا کہ ایسی بات منہ سے نکالنے سے قبل وہ ان سے بھی دریافت کر لیتے جن کا اس معاملہ کے ساتھ تعلق تھا۔ یعنی خود حضرت صاحب یا اس خاکسار سے۔ میرے نزدیک یقینا ان کا مذہباً اور اخلاقاً دونوں لحاظ سے فرض تھا۔ پس انہوں نے ایک اہم فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کر کے اپنے ایک بھائی کے احساسات کو ناواجب طور پر مجروح کیا ہے اور اس کی طرف ایسی گندی اور کمینہ بات منسوب کی ہے کہ اس پر جتنی بھی نفرین کی جاوے کم ہے۔ یعنی ایک ادنیٰ سی دنیوی خواہش کے پورا نہ کئے جانے پر جماعت کے خلیفہ کے خلاف آواز اٹھا کر جماعت کے اتحاد کوخطرہ میں ڈالنے کے لئے تیار ہو گیا ہے۔ اس ذہنیت پر میں سوائے ’’انا ﷲ وانا الیہ راجعون‘‘ کہنے کے اور کیا کہہ سکتا ہوں۔ میں امید کرتا ہوں کہ جن دوستوں نے اس