احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
معلوم شد، فتنہ فساد کی خاطر بنیں۔ بلکہ حق کی خاطر۔ اگر ان مشکلات کے لئے ’’موتوا قبل انت تموتوا‘‘ پر پورا پورا عمل کر کے اپنے دل ودماغ کو تیار کر لیا جائے تو پھر کوئی وجہ خوف کی نہیں۔ میں اس وقت اس بحث میں پڑنا نہیں چاہتا کہ مرزامحمود احمد خلیفہ ربوہ احمدیوں کے بائیکاٹ ومقاطعہ کو مہذب اور شریف دنیا میں کس نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ میں صرف یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اسلام بائیکاٹ ومقاطعہ کو جائز قرار دیتا ہے یا نہیں۔ نیز خلیفہ صاحب بائیکاٹ ومقاطعہ کاحربہ کیوں استعمال کرتے ہیں۔ زناکاری کا الزام بدستور یہ امر واقعہ ہے کہ خلیفہ ربوہ پر، حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) کے زمانے میں بھی زناکاری کا الزام لگا اور خصوصاً ۱۹۲۷ء سے متواتر بدکرداری اور بدچلنی کا الزام لگ رہا ہے۔ لیکن خلیفہ صاحب اس کو ٹال مٹول کر رہے ہیں۔ آپ کو فضل عمر ہونے کا دعویٰ بھی ہے۔ آپ بائیکاٹ اور مقاطعہ اس لئے کرتے ہیں تاکہ میری بدچلنی کا اظہار کسی اور احمدی کے کانوں میں نہ پڑے اور وہ ڈر جائے اور میں تقدس کے بناوٹی پردے میں رنگ رلیاں مناتا رہوں۔ اس ضمن میں ان کا بیان درج ذیل ہے۔ ’’اس عرصہ دوران بائیکاٹ میں ماں باپ اور بیوی بچوں اور دوسرے تمام رشتہ دار کا فرض ہوگا کہ جس طرح ایک گندہ چیتھڑا اپنے گھر سے باہر پھینک دیا جاتا ہے اس طرح وہ اسے اپنے گھر سے نکال دیں۔ باپ بچے کو نکال دے۔‘‘ (خواہ بچے گھر سے نکال کر آوارہ ہو جائیں یا اسلام کو چھوڑ کر کوئی اور مذہب ہی کیوں نہ اختیار کر لیں۔ ناقل!) خلیفہ صاحب کی دورنگی شریعت خلیفہ صاحب ربوہ کا دستور ہے کہ وہ کام جس کو وہ خود کرتے ہیں اسے تو شریعت کے مطابق گردانتے ہیں۔ مگر جب وہی کام دوسرے لوگ کریں تو یہ شور برپا کر دیتے ہیں۔ یہ کام شریعت کے خلاف ہے جن افراد کو آپ سے اختلاف ہوا۔ آپ نے ان کا مکمل سوشل بائیکاٹ کیا اور ان کی جائیدادیں تک ضبط کرلی گئیں۔ مگر جب دوسرے لوگ بھی تبدیلی عقیدہ کی بناء پر ان کو مقاطعہ کا شکار بناتے ہیں تو ان کے سامنے قرآنی آیت ’’لا اکراہ فی الدین‘‘ پیش کر کے یہ کہا جاتا ہے کہ ’’بائیکاٹ کرنا تو یہودیوں اور کافروں کا شیوہ ہے۔‘‘ (الفضل مورخہ ۱۰؍جون ۱۹۵۶ء) ان سختیوں کے باوجود پھر اس کو کسی نہ کسی مقدمہ میں پھنسانے کی کوشش کی جاتی ہے۔