احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
دو یہ بالکل ممکن اور جائز ہے کہ خدائے تعالیٰ کسی حیوان یا انسان یا پرندہ کو ایسی حالت میں بھی کہ وہ ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے۔ حقیقی موت سے بچائے… کیونکہ وہ ہر بات پر قادر ہے۔‘‘ پھر معلوم نہیں عیسیٰ مسیح کی حیات سے اب کیوں انکار کیا جاتا ہے جبکہ سنت صحیحہ سے بہت سے نظائر جو ابھی ابھی مذکور ہوئے ہمارے سامنے موجود ہیں مگر مرزا قادیانی جب نصوص قرآنیہ دربارہ احیاء اموات کو نہیں مانتے تو احادیث کو کب مانیں گے۔ انبیاء پر مرزا قادیانی غضبناک ہوتے ہیں کہ انہوں نے خدائے تعالیٰ سے معجزات کیوں طلب کئے اورکیوں خدائی معجزات دکھانے کا دعویٰ کیا۔ جھونجھل میں آکر مسیح علیہ السلام پر سب ولعن کیا۔ توحید کے باپ ابراہیم علیہ السلام پر بروزی غصے کا ابراز کیا۔ یعنی ابراہیم علیہ السلام نے ’’رب ارنی کیف تحی الموتیٰ‘‘ اور ’’ولکن لیطمئن قلبی‘‘ کیوں کہا؟ کیا ان کو خدائے تعالیٰ پر پورا ایمان نہ تھا۔ حالانکہ قوت مطمئنہ کا استحصال انبیاء کی شان اور اعلیٰ درجہ کی صفت ہے۔ پڑھ ’’یا ایتہا النفس المطمئنۃ ارجعی الیٰ ربک‘‘ انبیاء پر غضبناک ہونا بعنیہ خدائے تعالیٰ پر غضبناک ہونا ہے کہ انہیں تو معجزات دکھانے کی قوت عطا کردی اور مجھے باوصف نیرنگیوں کے اس قدر پاپڑ بیلنے کے محروم رکھا۔ خدائے تعالیٰ کا قانون تو ’’ذالک فضل اﷲ یوتیہ من یشاء‘‘ ہے اور فضل کی شان ہی بے علت عطا ہونا ہے۔ ہاں لے پالک کا کام ہے کہ اپنے آسمانی باپ کا جھونپڑا پھونکے جس نے ایسے الہامات کئے جن سے چہیتے کی گردن ٹوٹے اور ہمیشہ کے لئے استروں کی مالا اس کے گلے میں ڈال دی۔ ہم بھی تو دیکھیں بکرے کی ماں کب تک خیر مناتی ہے۔ خدا نے چاہا تو ایک نہ ایک دن پھانسی دھری ہے۔ مسیح بننا خالہ جی کا گھر نہیں۔ جس طرح وہ اپنی امت کا کفارہ بن گئے۔ کیا وجہ ہے کہ مثیل المسیح اپنے مرزائیوں کا کفارہ نہ بنے۔ بروزی نیرنگی تو دیکھئے کہ عیسیٰ مسیح کو چونکہ کروڑوں آدمی مانتے ہیں اور تمام یورپ ان کو خدا سمجھتا ہے اور دنیا کے ۳۰کروڑ مسلمان ان کے اولوالعزم نبی اور کلمۃ اﷲ ہونے پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس لحاظ سے تو آپ نے ان کو بڑا سمجھا اور ان کے نام سے بکنا چاہا اور چونکہ انہوں نے معجزات دکھائے اور احیاء موتیٰ کیا۔ اس لحاظ سے وہ برے ہوگئے۔ انبیاء کو تو خدائے تعالیٰ نے اپنی صفت احیاء اور اماتت دونوں کا حصہ اور پرتو عطا فرمایا مگر آسمانی باپ نے اپنے لے پالک کو اماتت ہی کا تمغہ اور پوٹلا بخشا کہ میں فلاں کو اتنے دنوں میں مار ڈالوں گا اور فلاں کو اتنے دنوں میں۔ اور