احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
عود کر آئے تمام قرآن کیوں نازل نہ ہوا نہ آنحضرتa کے تمام واقعات لوٹ کر آئے۔ انہی میں جنگ بدر، جنگ حنین، جنگ تبوک، جنگ خندق بھی ہیں اور سب میں خدائے تعالیٰ نے آنحضرتa کو فتح دی۔ آپ بروزی محمد بن کر جہاد کے نام سے بھی تھر تھر کانپتے ہیں۔ گھر سے باہر نکل کر چوہیا تک نہیں ماری۔ بلکہ جہاد کو منسوخ کردیا۔ ہات تیرے جھوٹے برازی کے منہ میں دجال کا براز اور پلید کے منہ میں خردجال کی لید۔ آپ (براہین ص۵۶۱، خزائن ج۱ ص۶۷۰)میں جدا جدا آیتوں ’’ففہمنا ہا سلیمان اور فاتخذوا من مقام ابراہیم مصلی‘‘ کو ایک جگہ گڈ مڈ کرکے اپنے لئے الہام بناتے ہیں۔ اور یہ معنی گھڑتے ہیں کہ وہ نشانی سلیمان کو سمجھائی یعنی اس عاجز (مرزا) کو۔ پس تم ابراہیم کے نقش قدم پر چلو یعنی (میرے) پہلی آیت میں اپنے کو سلیمان اور دوسری آیت میں ابراہیم بنایا۔ یعنی خدائے تعالیٰ نے ساری خلقت کو میری اتباع کا حکم دیا۔ یہ منہ اور باسی ساگ۔ یہ لے پالک کے بھاگ اور آسمانی باپ کا یہ بے وقت کا راگ۔ با ایں ہمہ دعویٰ علم وفضل اتنا بھی سلیقہ نہ ہوا کہ اپنا مطلب دوسرے الفاظ میں گھڑ لیتا ۔ آیات قرآن مجید ہی کو مسخ کرنے چلا۔ آخر مردود دجال کیونکر بنتا۔ ابے مجدد السنہ مشرقیہ کی جانب رجوع کرتا اور اس کی تجدید پر ایمان لاتا تو ایسے اچھوتے الہام القاء ہوجاتے کہ آسمانی باپ کے فرشتوں کو خواب میں بھی نہ سوجھتے۔ جناب باری نے کلام مجید میں ہر نبی کا ذکر صراحتہً کیا ہے نہ کہ اشارۃً اور منجملا۔ اور خدائے تعالیٰ کو اشارے اور تعمیہ سے کام لینے کی کیا ضرورت ہے۔ کہ نام تو کسی کا اور اس سے مراد ہو کوئی اور کیا الہام اور اجمال اور اشارے اور کنائے اور تعمیہ سے ہدایت تامہ ہوسکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ ہماری طرف رجوع لاتا تو ہم سیدھا اور صاف الہام یوں دم کردیتے۔ ’’فعلمنا المرزا العلامات والبرہان۔ فعمرو المنارۃ فی قادیان من الایمان والایقان والاذعان‘‘ دیکھ تو سہی کیسا پھڑکتا چوچوہاتا مسجع الہام ہے۔ برائے نام تو آپ مسیح موعود با بروزی محمد ہیں مگر درحقیقت سلیمان بھی ہیں ابراہیم بھی ہیں اور اب شب جی کی کرپا سے اس کلجگ میں دھارن کرکے سریکرشن بھی رام چندر بھی ہیں۔ لچھمن بھی ہیں ہنومان بھی ہیں، مطلب یہ کہ دنیا میں جس قدر باعظمت اکابر گزرے ہیں سب آپ ہیں اور نیچر کے بھبکے میں سب کا عطر اور ست کھنچ کر توند شریف میں وارد ہوگیا ہے۔ ایسا العجب صدر نگی دجال آج تک کوئی نہیں گزرا۔ سب کے کان کاٹ ڈالے۔ لیکن مرزا کیسے ہی جتن کرے ہم