احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
پیشینگوئیاں پٹ پڑیں خصوصاً مقدمات کے فتح کی پیشینگوئیوں نے تو ڈربا ہی پھونک دیا۔ جھوٹے اور بے معنی الہام کی مٹی خراب ہوچکی۔ موت کی دھونس اور طاعون کا ڈراوا بھی جہاں سے نکلا تھا وہیں گھس گیا۔ اس نے بھی ڈائن بن کر پوتوں ہی کو کھایا۔ الغرض کسی نے ساتھ نہ دیا۔ ترکش خالی ہوگئے۔ ایک تیر بھی نشانے پر نہ لگا بلکہ الٹا جولاہے کا تیر ہوگیا۔ اب حمقاء کے نچوڑنے کو بھی لٹکاباقی رہ گیا کہ عیسیٰ مسیح وفات پاگئے۔ لہٰذا میں مسیح ہوں۔ کوئی اس خردجال سے پوچھے کہ جب عیسیٰ مسیح اس سبب سے وفات پاگئے ہیں اس قابل نہ رہے کہ ان کو کوئی نبی بھی کہہ سکے اور سینکڑوں برائیاں اور فسق وفجور معاذ اﷲ ان میں پیدا ہوگئے تو دوسرے انبیاء عیوب سے کب بری رہ سکتے ہیں کیونکہ ظاہری وفات پاچکے ہیں۔ خود غرض انسان ضرور پاگل بھی ہوتا ہے کیونکہ اہل الغرض مجنون لہٰذا جو اعلیٰ انسانی صفات کسی میں پائی گئیں مرزا اس کا رقیب بن گیا۔ اور ان صفات کو اپنے درمیان کے اندر ٹھونسنے لگا۔ پھر طرّہ یہ ہے کہ ان صفات کے موصوف کو گالیاں بھی دینے لگا کہ میں اچھا ہوں اور وہ برا تھا۔ مثیل المسیح بن کر عیسیٰ کو گالیاں دیں۔ بروزی محمد بن گیا مگر ان کے صفت خاتم النّبیین سے انکار کیونکہ اس صورت میں خود نبی نہیں رہ سکتا۔ خودغرضی سے آنحضرتa کا وہ اصل درجہ گھٹا دیا جو خدائے تعالیٰ نے باستثناء دیگر انبیاء کے آپa کو عطا فرمایا ہے اور پھر خاتم الخلفاء (خاتم الانبیاء) اس شخص کی کیا کیا بدمعاشی اور نمک حرامی بیان کی جائے۔ اصل بات یہ ہے کہ جن انسانوں کے باعث مہتم بالشان واقعات ظہور میں آئے ہیں اور اس لئے دنیا ان کی عظمت کرتی ہے۔ یہ مردود اس عظمت کو نہیں دیکھ سکتا اور یہ چاہتا ہے کہ لوگ مجھے اس عظمت کا مستحق سمجھیں ورنہ یا تو اس واقعے ہی کو سرے سے اڑا دے گا یا مکار عورتوں کی طرح اوصاف میں کیڑے ڈالے گا یا دونوں افعال کا مرتکب ہوگا تاکہ ان کی عظمت گھٹے اور میری عظمت بڑھے۔ عیسیٰ مسیح کا واقعہ صلب وقتل عجیب مہتم بالشان واقعہ ہے جس کے باعث دنیا آپ کی عظمت کرتی ہے۔ مگر یہ عظمت اس کو نہیں بھاتی۔ پس مسیح کے رفع جسمانی اور حیات جاودانی سے انکار اور ان پر فسق وفجور کا الزام۔ ایسا ہی عظیم الشان معرکہ حضرت امام حسینؓ اور شہیدان دشت کربلا رضوان اﷲ علیہم اجمعین کا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر اس وقت تک نہ تو کسی نے ایسے ظلم وستم سہے اور صبرواستقلال سے کام لیا نہ لاکھوں لعینوں کے مقابلہ میں ۷۲تن نے ایسی داد شجاعت دی۔ اﷲ اﷲ یہ انہیں کا حوصلہ تھا کہ ایک کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے عزیز اور لخت جگر نے بڑی امنگ اور جوش مسرت کے ساتھ جام شہادت نوش فرمایا اور رضا الٰہی کی