احتساب قادیانیت جلد نمبر 58 |
|
بالفرض کال کوٹھری ہی ہوگئی تو کیا۔ یہ تو عیسیٰ مسیح کی سنت ہے۔ آپ چونکہ مثیل مسیح ہیں لہٰذا صلیب نہ ہو تو کم از کم جیل خانہ تو ہو۔ پس مرزا قادیانی کو بڑی خوشی اور ثبات واستقلال سے سزا کو قبول ومنظور کرنا چاہئے۔ بشرطیکہ عدالت سزا دے حالانکہ یہ ابھی کسی کو معلوم نہیں اور جب کہ خود لے پالک اور آسمانی باپ دونوں غچا کھا گئے تو دوسروں کو کیا معلوم ہوسکتا ہے کہ عدالت کیا کرے گی لے پالک کو ذرا حوصلہ کرنا اور تیل کی دھار دیکھنی چاہئے۔ فرد قرارداد جرم لگ جانے سے یہ ہرگز لازم نہیں آتا کہ عدالت سزا ہی دے دے گی۔ مرزا اور مرزائیوں کو یوں اطمینان کرلینا چاہئے کہ عدالت ہر طرح ضابطہ پری اور تکمیل مثل کی پابند ہے تاکہ کوئی سقم یا کمی نہ رہ جائے جس کی وجہ سے مجرم عدالت بالا سے صاف چھوٹ جائے اور سلمنا قید ہی ہوگئی۔ تب بھی لے پالک کے گہرے ہیں۔ مرزائیوں کو یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ یہ منجانب اﷲ ابتلاء تھا بعض انبیاء بھی قید رہ چکے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے کیسی کڑیاں جھیلیں پس مرزا قادیانی کسوٹی پر کس کر اور بھی کھرے ہوجائیں گے اور زیادہ قیمت کو بکیں گے۔ حیرت ہے کہ قرارداد جرم کا حکم سنتے ہی مرزا قادیانی کا ایسا پتلا حال کیوں ہوگیا کہ ہر طرح مایوس ہوکر بھی یقین کر بیٹھے کہ سزا ملے گی۔ کیا کوئی تازہ غضبناک الہام ہوا ہے جس نے پچھلے الہاموں کو جو فتح کا آرڈر لائے تھے۔ منسوخ کردیا ہے کیا کانشنس نے ان کو شرمایا ہے کہ تونے کیا جھک مارا تھا جس کی یہ سزا ملی اور اسی باعث ان کا جی چھوٹ گیا ہے ہمت ہار بیٹھے ہیں کیونکہ مجرم کو نوعیت جرائم پر نظر کرکے اپنا انجام ضرور معلوم ہوجاتا ہے ؎ وفا نمیکندامید مغفرت بایاس نہ زانکہ عفو الٰہی نساز دم مغفور ہماری رائے میں تو مرزا قادیانی کے حق میں سزا ہی مفید ہے کیونکہ وہ متنبہ ہوکر آئندہ ایسے افعال سے باز رہیں گے اور سزا کا ملنا ہی گویا ان پر رحم ہے ورنہ کیریکٹر پر نظر کرکے ساری عمر قید خانہ ہی میں کٹ جائے گی کیونکہ بزرگان مذاہب پر سب وشتم کرنے سے ان کے دشمن رات دن بڑھتے چلے جائیں گے جس کا انجام سب کو معلوم ہے بشرطیکہ مرزا قادیانی ہماری بات سمجھیں سراسر نفع تو اس میں تھا کہ وہ اقراری مجرم بن جاتے اور عدالت کو زیادہ تکلیف نہ دیتے ہماری رائے میں قید یا جرمانہ کی سزا تو چنداں قابل لحاظ نہیں نہ اس کی پروا۔ البتہ علیہ … مرزا قادیانی کو تو صرف یہ رونا ہے کہ میرے گوزشتر ہوجانے سے علماء اسلام اور مشائخ تو جدے خوش ہوں گے سکھوں کی مسجع داڑھی کا ایک ایک بال مور کی دم کی طرح جب وہ ناچتا ہے کھل جائے گا۔ آریا