معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
اپنے اوپر تکالیف برداشت کرنا اور دوسروں پر مہربانی کرنا پیغمبروں کی سنت ہے۔ عفو خواہی روز ِ محشر اے فقیر بر خلائق عفو را محکم بگیر اگر روزِ محشر تو خدا سے عفو چاہتاہے تو خدا کی مخلوق کے ساتھ تو ان کی خطاؤں کو معاف کرنے کی عادت ڈال لے۔ رحم خواہد بہرِ خود ہر مجرمے پس چرا خواہد غضب بر دیگرے جب ہر خطا کار اپنے قصور کی معافی اور رحم کو محبوب سمجھتاہے تو پھر جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں وہی دوسروں کے لیے پسند کرنا چاہیے نہ کہ دوسروں کے لیے غضب اور غصہ کو روا رکھیں۔ چوں بجو شد قہرِ تو بر خلقہا دور کن تیغِ غضب از خلقہا جب کسی مخلوق پر تجھے غصہ جوش کرے تو اپنے غضب کی تلوار کو ان کے حلق سے دور کرلے۔ یعنی از مغصوب رو جائے دگر دور کن مغضوب را یا از نظر یعنی جس پر غصّہ جوش کررہاہے اس سے دوسری جگہ چلے جاؤ یا اسی کو اپنے سے دور کردو۔ زود بنشیں گردر آں جا ایستی گر تو خواہی ایں غضب را نیستی اور اگر کھڑے ہو تو بیٹھ جاؤ یعنی جس حالت میں ہو اس کو تبدیل کردو اگر تو غضب ٹھنڈا کرنا چاہتاہے۔