معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
خلقہا در خواب چوں نائم شود جانِ مضطر در سحر قائم شود مخلوق جب کہ پڑی سوتی ہے عاشقوں کی جانِ مضطر پچھلے پہر اپنے رب کے سامنے قائم ہوتی ہے۔ ( المراد بہ قیامِ تہجد) جملہ عالم آں زماں در خواب شد عاشقِ رب بہرِ رب بے تاب شد جملہ کائنات اس وقت محوِ خواب ہوتی ہے اور عاشق اپنے رب کے لیے بے تاب ہوتاہے یعنی تارکِ خواب ہو کر تہجد پڑھتاہے۔ دردِ عشق از خوابِ بیروں می کشد جذبِ حق ایشاں ز آب و گل کشد اس کا دردِ عشقِ خواب سے بیدار کردیتاہے اور جذبِ حق تقاضائے عناصر سے اس کو آزاد کرکے اپنی طرف کھینچتاہے۔ عاشقاں را ایں بُوَد آرامِ جاں کہ رسانند آہ را تا آسماں عاشقانِ حق کا آرامِ جان یہی ہے کہ وہ اپنی آہ کو آسمان تک رسا کرتے ہیں۔ خاصہ آں آہِ سحر گاہی بود کو زِ رمزِ عشق آگا ہی بود خاص کر وہ آہ سحر گاہی تو عشقِ حق کے رمز سے آگاہی دیتی ہے۔ نالہ ہائے نیم شب آہِ سحر شد د وائے دردِ دل دردِ جگر دردِ دل اور دردِ جگر کے لیے دوا یہی نالہ ہائے شب اور آہِ سحر ہوتی ہے۔