معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
کیں ہمہ لذاتِ جملہ کائنات از خدا یا بند ہستی و صفات کیوں کہ تمام کائنات کی لذتیں حق تعالیٰ ہی سے تو وجود اور اپنے اندر لذت پاتی ہیں۔ لذتِ کون و مکاں ہر دو جہاں ایں ہمہ مخلوق از خالق بداں اور لذتِ کون و مکان دوجہان کو حق تعالیٰ ہی تو پیدا کرتے ہیں۔ پس چہ باشد لذتِ خود آں شہے کو ہمہ لذات را سر چشمہے پس کیا لذت ہوگی اس شاہِ حقیقی کے نام میں جو تمام لذتوں کا مرکز اور سر چشمہ ہے۔ جانِ جملہ لذتِ ایں کائنات ہست در اسمِ معظم اسمِ ذات جملہ کائنات کی لذت میں روح اللہ پاک کے نام ہی سے تو آتی ہے ۔ ایں مثالِ لطفِ نامِ پاک ذات ہست بہرِ فہم و عقلِ ناقصات یہ مثال میاں کے نام کے لطف کی محض ناقص عقل اور فہم کے لیے ہے۔ ورنہ چہ نسبت بود زاں لذتے کو بسازد انبیاء را عاشقے ورنہ کیا نسبت ہے اس کو اس نامِ پاک کی لذت سے جو نبیوں اور پیغمبروں کو مجنون کرتی ہے۔ ورمِ پائے سیدِ ہر دو جہاں در قیامِ شب بہ پیشِ شاہ جاں سید دو جہاںﷺ کے پاؤں مبارک میں سوج آنا رات کی نماز میں طویل قیام سے۔