معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
تمہارے دل کو اس نور کی بدولت وہ مرکزِ نور جو صاحبِ عرش ہے اور نور السمٰوٰت والارض ہے جذب سے اپنی طرف مستقیم رکھے۔ چناں چہ تجربہ ہے کہ ذکر کرنے والوں اور ذکر نہ کرنے والوں کی استقامت میں نمایاں فرق ہوتاہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ذکر سے نورِ حق پیدا ہوتاہے پس اس نورِ حق سے منور دل کو حق تعالیٰ کا نور اپنی طرف کھینچے رکھتاہے جس طرح قطب نماکی سوئی میں لگے ہوئے مقناطیس کے سبب قطب ستارہ کا مقناطیس اس کو ہر وقت شمال کی طرف کھینچے رکھتاہے،یہ مثال حق تعالیٰ نے احقر کے قلب میں محض اپنی رحمت سے عطا فرمائی ہے۔ذٰلِکَ مِمَّاخَصَّنِیَ اللہُ تَعَالٰی۔ ہرکہ او از ذکرِ حق غافل شود نورِ حق کے سوئے او مائل شود جو ذکرِ حق سے غافل ہوتاہے نورِ حق اسے جذب نہیں کرتا۔ پس برو اے جاں تو ذکر اللہ کن ذکرِ حق ایں بہرِ نور اللہ کن پس اے جان! جا اور ذکر اللہ میں مشغول ہوجا اور نورِ حق حاصل کرنے کے لیے ذکرِ حق کرنا شروع کردے۔ نورِ حق را نورِ حق جاذب شود نورِ حق را ذکرِ حق جالب شود نور، نور کو جذب کرتاہے اور نورِ حق ذکرِ حق سے پیدا ہوتاہے۔