معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
کبھی چاہ کہ موجبِ انقباض ہے موجبِ انبساط معلوم ہوتاہے اس کو عجیب اور قوی ہونے کے سبب سحرِ حلال کہا گیا اور حلال اس لیے کہا گیا کہ حق تعالیٰ کا ہر تصرف خیر ہے گو کسی خاص ضرر کے اعتبار سے اس کے حق میں خلافِ خیر ہو اور مصداق اس موجبِ انبساط و موجبِ انقباض کا حق و باطل ہے۔ انتباہ:مولاناکامقصود یہ ہے کہ قابض کی تجلی سے کبھی ایسے اسباب جمع ہوجاتے ہیں کہ حق بصورتِ باطل نظرآنے لگتاہے اور اس سے منقبض اور معرض ہوجاتاہے اور باسط کی تجلی سے کبھی ایسے اسباب جمع ہوجاتے ہیں کہ باطل بصورتِ حق نظرآنے لگتاہے پس حق و باطل کی تمیز میں کوشش کا جواختیار دیاگیاہے اس میں اہتمام کرانا مقصود ہے کہ کہیں غفلت اور قلتِ فکر سے غلطی میں واقع نہ ہوجاؤ، حق تعالیٰ نے اس تمیز کے اسباب اختیار میں دے دیے ہیں۔ زیں سبب درخواست از حق مصطفی زشت را ہم زشت و حق را حق نما اسی سبب سے حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے دعافرمائی کہ اے اللہ! آپ زشت کو زشت اور حق کوحق دکھائیے۔اشارہ دعااَللّٰہُمَّ اَرِنَاالْاَشْیَآءَ کَمَاھِیَ؎ کی طرف ہے جس کے الفاظ حدیث میں میری نظر سے نہیں گزرے لیکن مضمون ا س کا بہت سی حدیثوں میں مذکور ہے۔ تا بآخر چوں بگر دانی ورق از پشیمانی نیفتم در قلق آنکہ سازد در دلت حیلہ و قیاس آتشے داند زدن اندر پلاس ۴)یہ دعا اس لیے کرتاہوں کہ انجام کار جب آپ حیات کا ورق الٹیں یعنی حیات مبدل ------------------------------