معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
زیادہ تقریر اصلاحِ باطن کے لیے مفید نہیں۔ تھوڑی بات بھی اگر فکرکے ساتھ سنی جاوے تو کافی ہے لیکن اگر فکر بالکل جامد اور بے حس ہوگئی ہو تو کسی اللہ والے کے مشورے سے ذکرشروع کردو کیوں کہ فکر میں بلادت وغباوت و جمادت و برودت غفلت سے پیداہوتی ہے اور ذکرضدِّ غفلت ہے۔ ذکر آرد فکر را در اہتزاز ذکر را خورشید ایں افسردہ ساز ذکر گو تا فکرِ تو بالا کند ذکر گفتن فکر را والا کند ذکر کی گرمی تمہارے فکرِ جامد کوحرکت میں لاوے گی پس فکرِ افسردہ کا علاج یہی ہے کہ ذکر کے آفتاب سے اس کو گرمی پہنچائی جاوے، اہتزاز کے معنیٰ حرکت میں آناہے۔ فَاِذَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡہَا الۡمَآءَ اہۡتَزَّتۡ وَ رَبَتۡ وَ اَنۡۢبَتَتۡ مِنۡ کُلِّ زَوۡجٍۭ بَہِیۡجٍ ؎ (ترجمہ حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ) حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ پھر جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو وہ ابھرتی ہے اور پھولتی ہے اور ہر قسم کی خوشنما نباتات اگاتی ہے ۔ یہ خاصیتِ مذکورہ دنیا کی زمین کے بارے میں ارشاد ہے اسی طرح ایک مقام پر ارشاد فرمایا: فَسُقۡنٰہُ اِلٰی بَلَدٍ مَّیِّتٍ ؎ یعنی بارش کے بدون زمین کو مردہ فرمایا۔ اسی طرح دل کی زمین کاحال ہے کہ بدون ایمان مردہ ہے :اَوَ مَنۡ کَانَ مَیۡتًا فَاَحۡیَیۡنٰہُ؎ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں ارشاد ہے کہ کیا وہ شخص جو مردہ تھا پس ہم نے حیات بخشی ان کو ایمان کی نعمت سے۔ ------------------------------