معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
کے چہرے سے اور اس کے کلام سے پتا چل جاتاہے کہ اس کے قلب کو حق تعالیٰ کے ساتھ نسبت و معیتِ خاصہ حاصل ہے اور علوم او رواردات کی بارش ہوئی ہے۔ بوئے مے را گر کسے مکنوں کند چشمِ مستِ خویشتن را چوں کند اگر کوئی بادہ نوش اپنی بادہ نوشی کو چھپانے کی کوشش بھی کرے لیکن اپنی مست آنکھوں کو کہاں چھپائے گا۔ اسی طرح اللہ والے اپنے کو کتنا مخفی کریں لیکن اہلِ نظر ان کی نظر کو دیکھ کر بھانپ لیتے ہیں کہ یہ شخص عاشقِ حق ہے کیوں کہ قلبی کیفیات کا عکس آنکھوں پر پڑتاہے۔ ہرکہ باشد قوتِ او نورِ جلال چوں نزاید از لبش سحرِِ حلال جس شخص کی غذا انوارِ الٰہیہ ہیں یعنی جس کی روح نورِ عبادت سے غذاحاصل کررہی ہے تو اس کے لبوں سے سحرِ حلال(کلامِ مؤثر) کیوں کر نہ پیدا ہوگا یعنی صاحبِ نسبت کا کلام بھی غمازی کرتاہے کہ یہ شخص خدا رسیدہ ہے۔ خو نداریم اے جمالِ مہتری کہ لبِ ما خشک و تو تنہا خوری اے صاحبِ جمالِ باطنی میرے شیخ! ہم اس امر کے عادی نہیں ہیں کہ آپ اکیلے اکیلے جام پر جامِ محبت و معرفتِ حق سے تنہا نوش فرماتے رہیں اور ہمارے لب خشک بالکل محروم رہیں۔ جرعۂ بر ریز بر ما زیں سبو شمۂ از گلستاں با ما بگو اپنے سبو سے ایک جرعہ ہمارے اوپر بھی ڈال دیجیے اور گلستانِ قرب سے کچھ تھوڑا سا راز ہمارے کان میں بھی کہہ دیجیے۔