معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
حق تعالیٰ چاہتے ہیں کہ تو پرہیزگاراورمتقی ہوجاوے تاکہ نفس کے رذائل و غوائل سے تزکیہ عطاہونے کے بعد تجھے ایمانِ تقلیدی سے ترقی ہوکر ایمانِ تحقیقی عطا ہوجاوے۔ ایں جہاں دام است و دانہ اش آرزو در گریز از دا نہائے دامِ او یہ دنیا جال ہے اور دانہ آرزوہے پس اس جال کے دانوں سے تواپنے کو دور رکھ۔ ہرچہ غیرِ اوست استد راجِ تست گرچہ تخت و ملکِ تست و تاجِ تست جونعمت بھی تجھے منعمِ حقیقی سے غافل کرکے صرف اپناہی بنالے تو وہ نعمت نہیں استدراج ہے اگرچہ تخت و تاج سلطنت ہی کیوں نہ ہو: سَنَسۡتَدۡرِجُہُمۡ مِّنۡ حَیۡثُ لَا یَعۡلَمُوۡنَ؎ حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم ان کفار کو بتدریج لیے جارہے ہیں اس طور پرکہ ان کو خبر نہیں۔ یعنی نافرمانی کے باوجود نعمتوں کی فراوانی رحمت نہیں ہے بلکہ عذاب کے لیے ایک قسم کی ڈھیل ہوتی ہے۔ دیومی ترساندت ہر دم ز فقر ہمچو کبکش صید کن اے باز صقر شیطان تجھے تنگدستی سے ہروقت ڈراتاہے اے بازشکاری!تواس کو مثل کبک شکار کرلے یعنی اس مردود کی بات کو حقیرسمجھ کر التفات نہ کر۔ ہر دکاں ر ہست سودائے دگر مثنوی دکّانِ فقر ست اے پسر اے لڑکے!ہردوکان میں دوسرے سامان ہیں اور مثنوی فقروبے سروسامانی کی دوکان ہے۔ ------------------------------