معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
دن ضرورمیاں تمہیں مل جائیں گے یعنی قلب میں معیتِ خاصہ کا انکشاف عطاہوجاوے گا ؎ اندریں رہ می تراش و می خراش تا دمے آخر دمے فارغ مباش حق تعالیٰ کی راہ میں مشقت اور محنت اصلاحِ نفس کی خاطر برداشت کرتے رہو اور آخری سانس تک اپنے کو فارغ مت سمجھو: وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ؎ اپنے رب کی بندگی میں لگے رہویہاں تک کہ وہ یقینی چیز یعنی موت آجاوے ؎ دوست دارد دوست ایں آشفتگی کوششِ بیہودہ بہ از خفتگی محبوبِ حقیقی اپنے طالبین کی حیرانی اور عاجزی اور درماندگی کو محبوب رکھتے ہیں اور ٹوٹی پھوٹی ناکارہ کوشش کوبھی بے کارسمجھ کر مت چھوڑبیٹھوکہ بالکل سورہنے سے یہ بھی غنیمت ہے ؎ نہ چت کرسکے نفس کے پہلواں کو تو یوں ہاتھ پاؤں بھی ڈھیلے نہ ڈالے ارے اس سے کشتی تو ہے عمر بھر کی کبھی وہ دبالے کبھی تو دبالے حاصل آنکہ ہر کہ او طالب بُود جانِ مطلوبش برو راغب بُود خلاصہ یہ کہ جو بندہ اللہ تعالیٰ کا طالب ہوتاہے اس کی جان پر حق تعالیٰ بھی توجۂ خاص فرماتے ہیں اور اپنا بنالیتے ہیں ؎ ------------------------------