معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
علم ہے۔ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ: اَنَا اَعْلَمُکُمْ بِاللہِ؎ وَاَنَااَخْشَاکُمْ؎ اے لوگو!میں تم سب سے زیادہ اللہ کو جاننے والا ہوں اور اسی سبب سے تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والاہوں اور حدیث شریف میں آتاہے کہ: کَانَ مُتَوَاصِلَ الْاَحْزَانِ دَآئِمَ الْفِکْرَۃِ؎ ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل غمگین اور فکر مند رہتے تھے۔ آخرت کا خوف اور امت کا غم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں رکھتاتھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ ہونے کے باوجود عرض کرتے ہیں: وَ لَا تُخۡزِنِیۡ یَوۡمَ یُبۡعَثُوۡنَ؎ اے ہمارے رب! میدانِ محشر میں ہمیں رسوا نہ کیجیے گا۔ تفسیرِ خازن میں ہے کہ حضرت عزرائیل علیہ السلام غلبۂ خوفِ خداوندی سے سکڑ کر گوریا کے برابر ہوجاتے ہیں۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ خوف سے فرماتے ہیں کہ کاش! میں کوئی درخت ہوتا جو کاٹ دیاجاتا۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کاش! میری ماں نے مجھے جناہی نہ ہوتا۔ مقبولانِ بارگاہ کایہی حال ہوتاہے کہ عظمتِ الٰہیہ کا جس قدر انکشاف ہوتاجاتاہے،ہیبتِ حق کا غلبہ ہوتاجاتاہے اور جن کی آنکھیں اندھی ہیں انھیں اپنے علوم سے صرف حلوا، مانڈا اور معاش کی ضروریات حاصل کرناہوتاہے۔بزرگانِ دین کی صحبت نہ ملنے سے یہی حشر وانجام ہوتاہے۔ بقول حضرت علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃاللہ علیہ کے کہ نورِ نبوت کے بغیر علومِ نبوت پڑھ لینے سے عملی زندگی کبھی درست نہیںہوسکتی اس لیے فراغِ درسیات اور علومِ ظاہری کے بعد اہل اللہ کی صحبت ------------------------------