معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
اولیاء اللہ چوں کہ موت کو محبوبِ حقیقی کی ملاقات و دیدار کا ذریعہ سمجھتے ہیں اس لیے ان کے لیے موت شکر کی طرح شیریں ہوتی ہے۔ جاں مجرد گشتہ از غوغائے تن می پرد با پرِّ دل بے پائے تن عارف کی جان جسم کے حواسِّ خمسہ ظاہرہ وباطنہ کے ہنگاموں سے آزاد ہوکر دل کے پر سے حق تعالیٰ کی طرف ہر لحظہ اڑتی رہتی ہے بغیر جسم کے پاؤں کے۔ ہست ما را خواب و بیداریٔ ما بر نشانِ مرگ و محشر دو گوا ہمارا سونااوربیدار ہونا یہ دونوں گواہ ہیں موت اور حشر پر ،حدیث شریف میں وارد ہے کہ اَلنَّوْمُ اَخُ الْمَوْتِ؎ نیندموت کابھائی ہے، جس نے کسی کو نہ دیکھاہو اس کے بھائی کو دیکھ لے (یہ مقولہ مشہور ہے)حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیثِ پاک میں حشر ون شر کا مشاہدہ کرادیا کیوں کہ سونے کے بعدمردہ اور سویاہوادونوں یکساں ہوجاتے ہیں۔ شب ز زِنداں بے خبر زندانیاں شب زِ دولت بے خبر سلطانیاں رات کو سوجانے کے بعد قیدی قید خانے کے الم سے اور سلاطین اپنی سلطنت و دولت کے احساس سے بے خبر ہوجاتے ہیں۔سوکر اٹھنے کے بعد کی حدیث شریف میں دعاکامضمون بھی ایک استدلالی مضمون کاحامل ہے۔ اَلْحَمْدُلِلہِ الَّذِ یْ اَحْیَانَابَعْدَمَااَمَاتَنَاوَاِلَیْہِ النُّشُوْرُ ؎ شکر اس مالکِ حقیقی کا جس نے ہم کو زندہ کردیا بعد مردہ کردینے کے اور اسی کی طرف ہمارا ایک دن حساب کتاب کے لیے جمع ہوناہے۔ ------------------------------