معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
گر بصورت آدمی انساں بُدے احمدؑ و بوجہل ہم یکساں شدے ترجمہ: اگر آدمیت صرف انسانی صورت کا نام ہوتواحمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوجہل یکساں ہوتے حالاں کہ ایسانہیں ہے ۔ فائدہ : اگر اس معیار ونظریہ پر ہرشخص اپنی انسانیت اور آدمیت کا جائزہ لے تو روئے زمین پرصرف اللہ والے ہی آدمی نظرآئیں گے۔ باقی تمام دنیائے انسانیت جوصرف کھانے اور ہگنے میں اور ان مقاصد کے ذرائع اور وسائل کی ترقی میں مشغول ہے اورزیستن برائے خوردن ہی اس کا منتہائے مقصداور مبلغِ علم ہے تواس کی بلند مقامی کی تشریح کے لیے سب سے موزوں مثال یہی سمجھ میں آتی ہے کہ جس طرح آٹے کی مشین ہے جس کے ایک سرے میں گندم ڈالتے ہیں اور دوسرے سے آٹا نکالتے ہیں اور اس کا نام آٹے کی مشین رکھتے ہیں اسی طرح زندگی کو محض کھانا اور ہگنا سمجھنے والے ایک مشین ہیں جن کے ایک سرے میں روٹی ڈالی جاتی ہے اور دوسرے سرے سے پائخانہ نکلتاہے تویہ گوبنانے کی مشین ہوئے یعنی اپنی زندگی کو صرف کھانے اور ہگنے کے لیے سمجھا گویا اپنے کو پائخانہ بنانے کی مشین قرار دیناہے۔ خدا تعالیٰ اس احمقانہ نظریہ سے محفوظ فرمادیں۔ مولانا کے ان مضامین سے کہ آدمیت، نام گوشت چربی اور انسانی کھال کانہیں بلکہ رضائے دوست کانام ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا جس کوحاصل ہو اور اس کی علامت یہ ہے کہ رضائے الٰہی کے اعمال واخلاق سے آراستہ ہو اور ناراضگیٔحق کے اعمال سے حفاظت وتقویٰ حاصل ہو،ایسا آدمی بے شک آدم والا ہے۔ یعنی نسبت کا مفہوم اس میں موجود ہے اور آدم علیہ السلام کی خاص صفت رَبَّنَاظَلَمْنَا تھی یعنی اپنے قصور پرآپ طویل عمرروتے رہے حتّٰی کہ آپ کے آنسوؤں سے چھوٹے چھوٹے چشمے ہوگئے اور ان ہی سے خوشبودارپھول گلاب،بیلا وغیرہ پیدا کیے گئے جیساکہ اس کی روایت تفسیرعلی مہائمی میں موجود ہے۔ پس مولانا فرماتے ہیں: