معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
جاں ز ہجرِ عرش اندر فاقۂ تن زِ عشقِ خار بن چو ناقۂ مولانارومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جان صاحبِ عرش(محبوبِ حقیقی تعالیٰ شانہٗ) کی جدائی میں فاقہ زد ہے اور جسم اپنے اسبابِ عیش کی جستجو میں مثل اونٹنی کے سمتِ مخالف کوجاتاہے۔ پائے را بر بست گفتا گو شوم در خمِ چوگانش غلطاں می روم مجنون نے پاؤں باندھ کر کہا: اب میں گیند بن جاتاہوں اور لیلیٰ کی کششِ عشق کے چوگان سے لڑھکتاہوا چلوں گا۔ نوٹ : چوگان اس لکڑی کو کہتے ہیں جس سے گیند کھیلتے ہیں اس کو ہاکی بھی کہتے ہیں۔ عشقِ مولیٰ کے کم از لیلیٰ بود گوئے گشتن بہرِ او اولیٰ بود مولانااب نصیحت اور نتیجہ بیان فرماتے ہیں کہ اس واقعہ سے ہم کو یہ سبق لینا چاہیے کہ لیلیٰ ایک سڑنے والی لاش کی محبت میں تومجنون کو اس قدرہمت اور عقل ہو اور ہم مولیٰ کے عاشقین کہلاتے ہیں تومولیٰ کا عشق لیلیٰ سے کب کم ہوسکتاہے۔ ان کے لیے توگیندبن جانازیادہ اولیٰ ہے۔ فائدہ : اس وقت ہمارے تغافل اور آخرت سے لاپروائی کا بڑاسبب یہی ہے کہ ہماری روح اور عقل توخدا کی طرف چلنا چاہتی ہے لیکن ہمارا نفس دنیا کی حرص و محبت میں مجنون ہوکردنیا کی طرف بھاگتاہے۔ نفس سے ہمہ وقت یہی جنگ ہے، آخرت اوردنیادولیلیٰ سے ہمارا پالاپڑاہے، بس جولیلیٰ باقی ہے اس کو لے لو اور جولیلیٰ فانی ہے اس پر صبرکرلو اس کایہ مطلب نہیں کہ دنیا کوترک کردو اور جنگل بھاگ جاؤ۔ یہ توجہالت ہے بس آخرت کو دنیا پر غالب کرلو۔ یہی کافی ہے لیکن اس کی ہمت کسی اللہ والے کی محبت اور اس کی غلامی ہی سے عطاہوتی ہے۔