معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
چور نے آواز دی کہ اے امیرالمؤمنین!یہ میرااول جرم ہے، درگزر کردیجیے۔ گفت عمر حاشَ للہ کہ خدا بارِ اول قہرِ نارد در جزا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: حاشاللہ! اللہ تعالیٰ پہلی خطا پر قہر نازل نہیں فرماتے۔ بارہا پوشد پئے اظہارِ فضل باز میرد از پئے اظہارِ عدل اکثر مرتبہ اظہارِ فضل کے لیے جرائمِ عباد کی ستاری فرماتے ہیں پھر: چوں بحد گزری ترا رسوا کند جب کوئی حد سے گزرجاتاہے تو پھر اظہارِ عدل کے لیے اسے گرفتارِ بلا ورُسوائی کرتے ہیں۔ تاکہ ایں ہردو صفت ظاہر شود آں مبشر گرد د ایں منذر شود تاکہ حق تعالیٰ کی دونوں ہی صفات کا ظہور ہوجاوے اور ایک صفت بشارت دہندہ ہو اور دوسری ترسانندہ(ڈرانے والی) ہو۔ فائدہ : اس حکایت سے سالکین کے لیے بڑا سبق ہے کہ بدنگاہی اور مثل اس کے بہت سے گناہ میں طویل عمر مبتلارہنے کے باوجود ہمت اور فکرِ اصلاح سے غافل ہیں اور خلق میں صوفی بھی شمار ہوتے ہیں لیکن حق تعالیٰ کی ایک صفت ستاریت سے مطمئن ہونا اور دوسری صفت قہاریت سے بے خوف ہوناسخت نادانی ہے۔ اظہارِ فضل کی صفت ہمیں اصلاح اور توبۂ صادقہ کے لیے موقع فراہم کرتی ہے، اگر اس نعمت سے ہم فائدہ نہ اٹھائیں گے تو اظہارِ عدل کی صفت ہم کو گرفتارِ بلا وذلت کرے گی۔ پس دوسری صفت کے ظہورسے ہروقت خائف اور ترساں رہے اور استغفار و گریہ وزاری کے ساتھ ترکِ گناہ کی سخت فکر کرے اور اپنے مصلح سے برابر مشاورت رکھے ورنہ معصیت کے ساتھ اذکار اوروظائف کا نفعِ تام نہ ہوگا اور ایسا سالک ہمیشہ ناقص رہے گااور منزلِ قربِ الٰہی سے دور کیوں کہ اصرارعلی المعصیت اور قربِ الٰہی