معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
ہے تو یہی قدرِ مشترک سبب ہوتاہے دونوں کی دوستی اور مناسبت کا۔ درعجب ماندم بجستم حالِ شاں تاچہ قدرِ مشترک یا بم نشاں ساتھیوں نے کہاکہ ہم تعجب میں ہوئے اور ان دونوں کے حالات کا جائزہ لیا کہ وہ قدرِ مشترک کیاہے۔ چوں شدم نزدیک من حیراں و دنگ خود بدیدم ہر دو آں بو دند لنگ ساتھیوں نے کہا: جب ہم اس پاگل کے قریب گئے تو حیران رہ گئے کہ یہ دونوں لنگڑے تھے۔ یعنی قدرِ مشترک یہ وصف تھا جس سے دونوں میں مناسبت ہورہی تھی۔ فائدہ : اس حکایت سے یہ سبق ملتاہے کہ جب انسان نیک آدمی سے مل کر خوش ہو یا نیک آدمی اس سے مل کر خوش ہو تو خدا کا شکرکرے کہ یہ علامت اچھی ہے یعنی طبیعت کی نیکی دونوں میں قدرِ مشترک ہے ، خواہ اعمال ابھی اچھے نہ ہوں لیکن ایسا شخص نیکی میں ترقی کی صلاحیت رکھتاہے۔ اور اگرکوئی برے انسان سے مل کر خوش ہویابرے انسان اس سے مل کر خوش ہوں اور اپنی برائی کی اصلاح بھی نہ چاہتے ہوں تو سمجھ لینا چاہیے کہ برائی اس کے اندر بھی ہے جو قدرِ مشترک بنی ہوئی ہے۔ دونوں کی مناسبت اور مسرت کا تجربہ ہے کہ اگر کسی کو دیندارسمجھاگیاہے اس کے ظاہر سے لیکن اس کا اٹھنا بیٹھنا رات دن دنیا داروں میں ہے اور یہ ان کی اصلاح کے لیے نہیں ملتا بلکہ محض خوش طبعی اور تفریحی طور پر وقت گزارتاہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ بھی دنیادارہے۔ اس مضمون کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اَلْمَرْءُ عَلیٰ دِیْنِ خَلِیْلِہٖ‘‘؎ ہرآدمی اپنے گہرے دوست کے دین پر ہوتاہے۔ پس کسی شخص کو اگر ------------------------------