معارف مثنوی اردو شرح مثنوی مولانا روم |
س کتاب ک |
|
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ کے رسد مر بندہ را کو باخدا آزمایش پیش آر د ز ابتلا کب بندہ کو یہ حق پہنچتاہے کہ وہ خدا کی آزمایش اور امتحان کی جرأت کرے۔ بندہ را کے زہرہ باشد اے فضول امتحانِ حق کند اے کیج کول؎ بندہ کو کہاں اس کا پتّہ(ہمت) اے احمق نالائق! کہ وہ حق تعالیٰ کا امتحان کرے۔ آں خدا را می رسد کو امتحاں پیش آرد ہر دمے بابندگاں یہ توخدا ہی کو حق پہنچتاہے کہ ہروقت بندوں کا امتحان کرتارہے۔ گر بیاید ذرہ سنجد کوہ را بردرد زاں کہ ترازوش اے فتیٰ اگر پہاڑ کے دامن میں ایک ذرہ پہاڑ کی بلندی کو دیکھ کر کہے کہ اچھا میں تجھے وزن کروں گا کہ کس قدر طول وعرض اور وزن والا ہے، تو اس بے وقوف ذرہ کو سوچنا چاہیے کہ جب اپنی ترازو پر پہاڑ کو رکھے گا تو اس کی تو ترازوہی پھٹ جاوے گی یعنی اس وقت نہ یہ ذرہ باقی ہوگا نہ اس کی ترازوسلامت ہوگی، تو وزن کا خیال محض احمقانہ خیال ہوا ۔ کز قیاسِ خود ترازو می تند مردِ حق را در ترازو می کند پس ایسے احمق اپنے قیاس کے ترازو پر ناز رکھتے ہیں اور اللہ والوں کو اپنے احمقانہ خیالی ترازو میں تولنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ------------------------------